اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر خدا کسی کو دے تو بیٹی کو جہیز میں بہت دینا برا نہیں مگر طریقہ سے ہونا چاہئے جو لڑکی کے کچھ کام بھی آئے۔ مگر عورتوں کو کچھ نہیں سوجھتا یہ تو ایسی بیہودہ ترکیبوں سے برباد کرتی ہیں جس سے نہ ان کو کچھ وصول ہوتا ہے نہ لڑکی کو۔ (حقوق البیت صفحہ ۵۲) کاش جس قدر بے ہودہ روپیہ اڑایا ہے ان دونوں کے لئے اس سے کوئی جائداد خرید کر دی جاتی یا تجارت کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا تو کس قدر راحت ہو تی۔ (اصلاح النساء صفحہ ۱۵۸) جہیز میں بہت زائد کپڑے دینا اور رشتہ دار عورتوں کے جوڑے بنوانا جہیز میں اس قدر کپڑے دیئے جاتے ہیں کہ ایک بار میں ضلع میرٹھ کے ایک گائوں گیا تھا معلوم ہوا کہ وہاں ایک بہو صرف ایک کپڑا پندرہ سو روپیہ کا لائی ہے (جو آج کل پندرہ ہزار سے بھی زائد ہوںگے) برتن اور زیور اور لچکے گوٹے اس سے الگ تھے۔ میں نے بعض گھروں میں دیکھا ہے کہ جہیز میں اتنے کپڑے دیے گئے تھے کہ لڑکی ساری عمر بھی پہنے تو ختم نہ ہوں اب وہ کیا کرتی ہے اگر سخی ہوئی تو بانٹنا شروع کر دیا۔ ایک جوڑا کسی کو دیا‘ ایک کسی اور اگر بخیل ہوئی تو صندوق میں بند کر کے رکھ لئے۔ پھر بہت سے جوڑوں کا تو پہننا بھی نصیب نہیں ہوتا وہ یوں ہی رکھے رکھے گل جاتے ہیں اس طرح فضول خرچی کے ساتھ عورتیں مال برباد کرتی ہیں۔ بھلا جہیز میں اتنے کپڑے دینے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر کیوں نہ دیں اس میں بھی نام ہوتا ہے کہ فلانی نے اپنی بیٹی کو ایسا جہیز دیا اور اتنا اتنا دیا۔ بس شیخی کے واسطے گھر برباد کیا جاتا ہے۔ (حقوق البیت صفحہ ۵۲) اکثر ایسا ہوا ہے کہ دلہن مر گئی اور یہ سب سامان ہزاروں روپیہ کا ضائع ہوا۔ پھر دلہن کے کپڑوں کے علاوہ تمام کنبہ (خاندان والوں) کے جوڑے بنائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو پسند بھی نہیں آتے اور ان میں عیب نکالے جاتے ہیں۔ کس قدر بے تکلفی ہوتی ہے اور اس پر دعویٰ یہ کہ ہم نے رسمیں چھوڑ دی ہیں۔ (اصلاح النساء صفحہ ۱۸۵) جہیز دینے کا صحیح طریقہ‘ جہیز کب دینا چاہئے فرمایا لڑکی کوجو کچھ دینا ہو اس کو رخصتی کے وقت نہ دینا کیونکہ وہ اس کو دینا نہیں بلکہ وہ ساس سسر کو دینا ہے۔ (جہیز کا سامان) اگر لڑکی کے ہمراہ نہ کیا جاتا تو عقل کے موافق تھا کیوں کہ یہ سب سامان لڑکی ہی کو دیا جاتا ہے۔ اور اس وقت وہ قبضہ نہیں کرتی اور نہ اس کو خبر ہوتی ہے اس کو دینا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سر دست اپنے گھر رکھو۔ جب وہ خوب گھل مل جائے اور پھر جب وہ اپنے گھر آئے اس وقت تمام سامان اس کے سامنے رکھ دو اور کہو کہ یہ سب چیزیں تمہاری ہیں ان میں سے جتنی ضروری ہوں اور جتنا تیرا دل چاہے اور جب جی چاہے اپنی سسرال لے جانا اور جتنی چیزیں یہاں رکھنا چاہو یہاں رکھ لو پھر جو چیزیں وہ تمہارے سپرد کرے ان کو احتیاط سے اپنے یہاں رکھ لو۔ اور مصلحت یہی ہے کہ وہ ابھی (سامان جہیز) نہ لے جائے کیونکہ اس وقت تو اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ کسی وقت جب ضرورت ہو گی لے جائے گی (یہ طریقہ) عقل کے موافق ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ریاء بھی نہیں مگر چونکہ اس میں کوئی تفاخر اور