اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صاحب کے مرید تھے نہایت نرمی سے فرمایا مولوی صاحب آئندہ ایسا نہیں ہو گا مجھ سے بڑی کوتاہی ہوئی۔ حضرت (تھانوی رحمہ اللہ ) نے فرمایا کہ میری رائے میں جب اصرار کرتا ہوا دیکھے تب ادب سے کہہ دے اور اگر نازک مزاج ہو تو نہ کہے کہ برا مانے گا۔ (حسن العزیز صفحہ ۸۹ جلد ۲) دعوت ولیمہ ولیمہ کے فوائد و حدود ایک جدید نعمت کا حاصل ہونا اظہار و شکر اور سرور و خوشی کا سبب ہے اور آدمی کو مال خرچ کرنے پر آمادہ کرتا ہے‘ اور اس خواہش کی پیروی کرنے سے سخاوت کی عادت و خصلت پیدا ہوتی ہے اور بخل کی عادت جاتی رہتی ہے اس کے علاوہ بہت سے فوائد ہیں اس سے بیوی اور اس کے کنبہ کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک پایا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے مال خرچ کرنا اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خاوند کے نزدیک بیوی کی وقعت ہے۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی طرف رغبت اور حرص دلائی اور خود بھی اس کو عمل میں لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ولیمہ کی بھی کوئی حد مقرر نہیں کی مگر اوسط درجہ کی حد بکری ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کے ولیمہ میں لوگوں کو ملیدہ کھلایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض بیویو ں کا ولیمہ دو مد جو سے بھی کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو ولیمہ مسنون میں بلایا جائے تو چلا آئے۔ (المصالح العقلیہ صفحہ ۲۱۱) ولیمہ کا مسنون طریقہ ولیمہ کا طریقہ مسنون یہ ہے کہ بلا تکلف و بلا تفاخر (بغیر فخر کے) اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہو جائے اپنے خاص لوگوں کو کھلا دے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۹۳) مسنون ولیمہ کے حدود و شرائط ولیمہ اسی حد تک مسنون ہے جس کو اسلام نے متعین کر دیا ہے۔ جس میں غرباء بھی ہوں۔ ! اور حسب طاقت (اپنی حیثیت کے مطابق) ہو۔ " سودی قرض سے نہ کیا گیا ہو۔ # ریاء اور سمعہ (ناموری) کا دخل نہ ہو۔ $ تکلّفات نہ ہوں۔ % خالصاً لوجہ اللہ ہو وہ ولیمہ مسنون ہے۔