اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(عضل الجاہلیہ صفحہ ۳۶۸) بیوہ عورت کا نکاح نہ کرنے کی خرابی بہت سی قوموں میں اب تک یہ جہالت موجود ہے کہ بیوہ بیٹھی رہتی ہے بعض اوقات یہ غریب کھانے پینے سے محتاج ہو جاتی ہے۔ اگر شرافت عرفیہ (رسمی شرافت) لئے ہوئے ہے۔ تو کسی کی مزدوری بھی نہیں کر سکتی اور اگر دوسرے گھر کی مزدوری گوارہ کی تو بعض اوقات اس گھر میں رہنا پڑتا ہے چونکہ اس کا کوئی سرپرست نہیں ہوتا اس لیے بد نفس (برے خیالات کے لوگ) اس بے چاری کے درپے ہوتے ہیں اور کبھی ترغیب (لالچ) سے اور کبھی ترہیب (ڈرا دھمکا کر) سے کسی حیلہ بہانے سے خاص کر جب کہ اس میں نفسانی خواہش ہو۔ اس کی آبرو اور دین خراب کر دیتے ہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۳۲ جلد ۲) بیوہ انکار کرے تب بھی شفقت اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا نکاح کر دیا جائے بعض لوگ کہتے ہیںکہ ہم نے پوچھا تھا وہ راضی نہیں ہوتی مجھ کو اس میں بھی کلام ہے جو طریقہ پوچھنے کا ہوتا ہے کیا اسی طریقہ سے پوچھا تھا۔یا چلتی ہوئی بات کہہ کر الزام اتار دیا۔ پوچھنے پر جو بیوہ انکار کرتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اگر میں ایک دم سے راضی ہو جائوں گی تو خاندان کے لوگ یہی کہیں گے کہ یہ تو منتظر ہی بیٹھی تھی۔ خاوند کو ترس رہی تھی اس میں بدنامی ہو گی اس خوف سے وہ ظاہراً (دکھلانے کے لئے ) انکار کر دیتی ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ اس کو اچھی طرح سے مصلحتیں بتلائو۔ اس کے وسوسے کو رفع کرو‘ شفقت اور اہتمام سے گفتگو کرو‘ (اس کو سمجھائو) نکاح کے فوائد اور نہ ہونے کے نقصانات بتلائو اگر اس پر بھی وہ راضی نہ ہو تو تم معذور ہو۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۳۲) عمر رسیدہ بچوں والی بیوہ نکاح نہ کرے تو کوئی حرج نہیں غرض حتی الامکان بیوہ کا نکاح کر دینا ہی مناسب ہے۔ البتہ اگر کوئی بیوہ بچوں والی ہو اور عمر بھی ڈھل گئی ہو۔ اور کھانے پینے کی گنجائش ہو اور وہ انکار کرتی ہو اور قرائن سے شوہر سے اس کا استغناء (بے نیاز ہونا) معلوم ہوتو اس کے لئے اہتمام ضروری نہیں۔ (ایضاً صفحہ ۳۲ جلد ۲) بیوہ عورت پر اس کے سسرال والوں کی طرف سے ظلم بعض مسلمان قوموں میں یہ بات ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد عورت پر شوہر (کے گھر) والے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یعنی ماں باپ اس کے مالک نہیں رہتے بلکہ دیور‘ خسر مالک ہو جاتے ہیں بلکہ وہ عورت خو دبھی اپنی مالک نہیں رہتی نہ وہ خود اپنا نکاح کر سکے نہ ماں باپ کر سکیں۔ بلکہ جہاں جیٹھ وغیرہ کرنا چاہیں وہاں ہو گا مثلا خسر چاہے کہ اپنے چھوٹے بیٹے سے نکاح کر دوں اور باپ چاہے کہ دوسری جگہ کر لے تو باپ کا کچھ زور نہ چلے گا‘ اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ بہو گھر سے باہر نہ جائے۔ کانپور میں ایک دیور سے زبردستی لڑکی کا نکاح کر دیا گیا عورت اس لئے مجبور ہوتی ہے کہ اگر سسر کا کہنا نہ مانوں تو روٹی نہ ملے گی۔ میرے پاس ایک آدمی آیا کہ میری بھاوج پر میرا حق ہے اور وہ دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے ایسا کوئی تعویذ دو کہ وہ مجھ سے نکاح کر لے۔