اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کہ شاید نظر لگ جائے اور نکاح کا نام آتے ہی ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ ایک ایک چیز مجمع کو دکھائی جاتی ہے۔ برتن‘ جوڑے‘ اور صندوق حتیٰ کہ آئینہ‘ کنگھی تک شمار کر کے دکھلاتے جاتے ہیں۔ شاید وہ پہلے لخت جگر تھی اور اب نہیں رہی یا اب ہے اور پہلے نہ تھی جو اب کے اور پہلے کے برتائو میں بالکل الٹافرق ہو گیا۔ اگر آپ غور کر یں گے تو اس کی وجہ صرف تفاخر پائیں گے‘ برادری کو دکھانا ہے کہ ہم نے اتنا دیا۔ یہ منظور نہیں کہ بیٹی کے پاس سامان زیادہ ہو جائے۔ دل کا چور اور اسی واسطے جوڑے اور برتن غرض تمام جہیز ایسا تجویز کیا جاتا ہے کہ ظاہری بناوٹ میں بہت اجلا ہو اور قیمت کے اعتبار سے یہی کوشش کی جاتی ہے کہ سب چیزیں ہلکی رہیں۔ جب بازار میں خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے کہا جاتا ہے کہ شادی کا سامان خریدنا ہے لینے دینے کا سامان دکھائو۔ اگر اصل بیٹی کے ساتھ ہمدردی تھی تو گو جہیز تعداد میں کم ہوتا مگر سب چیزیں اچھی اور کار آمد ہوتیں بجائے اس کے کہ وہ چیزیں دی جاتی ہیں جو برتنے (اور استعمال میں لانے) کے قابل ہی نہیں ہوتیں۔ صرف ظاہری شمار بڑھا کر دی جاتی ہیں۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ۴۴۹) ریاکاری اور تفاخر کی مختلف صورتیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جہیز کو دکھاتے تک نہیں۔ دیکھو ہم نے رسمیں چھوڑ دیں سو جناب اس میں کیا کمال۔ اپنی بستی میں تو برسوں پہلے سے سامان جمع کر کے ایک ایک کو دکھلا چکی ہو۔ جو مہمان آتی ہے اس کو بھی اور جو رشتہ دار آتی ہے اس کو بھی ایک ایک چیز دکھلائی جاتی ہے اور خود سامان آنے میں جو شہرت ہوتی ہے وہ الگ‘ آج دہلی سے کپڑا آ رہا ہے اور مراد آباد گئے تھے وہاں سے برتن لائے ہیں اور اس کے بعد وہ دولہا کے گھر جا کر کہلاتی ہیں اور عام طور پر دکھایا جاتا ہے اور اسی واسطے لڑکی کے ہمراہ بھیجا جاتا ہے تو یہ قصد اعلان نہیں تو اور کیا ہے۔ (اصلاح النساء حقوق الزوجین صفحہ ۱۸۶) بجائے جہیز کے زمین‘ جائداد‘ باغ یا تجارت کے لئے نقدی رقم دینا میں نے ایک تعلق دار کی حکایت سنی ہے جو بہت بڑے مالدار ہیں کہ انہوں نے اپنی لڑکی کا نکاح کیا اور جہیز میں صرف ایک پالکی دی اور ایک قالین اور ایک قرآن مجید۔ اس کے سوا کچھ نہ دیا نہ برتن نہ کپڑے بلکہ اس کے بجائے ایک لاکھ روپیہ کی جائیداد لڑکی کے نام کر دی اور کہا کہ میری نیت اس شادی میں ایک لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی تھی اور یہ رقم اس واسطے پہلے تجویز کر لی تھی۔ خیال تھا کہ خوب دھوم دھام سے شادی کروں گامگر پھر میں نے سوچا کہ اس دھوم دھام سے میری بیٹی کو کیا نفع ہو گا۔ بس لوگ کھا پی کر چل دیں گے‘ میرا روپیہ برباد ہو گا اور میری بیٹی کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس لئے میں نے ایسی صورت اختیار کی جس سے میری بیٹی کو نفع پہنچے اور جائداد سے بہتر اس کے لئے کوئی نفع کی چیز نہیں اس سے وہ اور اس کی اولاد پشت ہا پشت تک بے فکری سے عیش کرتے رہیں گے‘ اور اب کوئی مجھے بخیل اور کنجوس بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے دھوم دھام نہیں کی تو رقم اپنے گھر میں بھی نہیں رکھی دیکھو یہ ہوتا ہے عقلاء کا طرز۔