اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سامان) کا جو لڑکی والے شادی کے موقع پر لڑکے والوں سے ( یا لڑکے والے لڑکی والوں سے) فرمائش کر کے لیتے ہیں وہ لوگ خواہ رسم کی پابندی سے یا مجمع کے شرم سے یا محرک (مانگنے والے) کے لحاظ سے دیتے ہیں۔ بعض لوگ بلا تحریک (بے مانگے خود) دیتے ہیں لیکن دینے کی بنا ء وہی رسم ہے کہ جانتے ہیں کہ نہ دینے سے یا تو مانگا جائے گا یا بدنام کیا جائے گا۔ سو اس قسم کی رقمیں (اور سامان) شرعاً حلال نہیں ہوئیں اور اس طرح سے مانگنا اور لینا درست نہیں ہوتا اور یہ رقوم (اور سامان) سب واجب الردہیں (یعنی ان کا واپس کرنا ضروری ہے) (حقوق العلم صفحہ ۸) شادی کے موقع پر اگر کسی نے لڑکی کے عوض روپیہ لیا تو یہ حرام ہے کیونکہ شریعت نے بیٹی کی کوئی قیمت نہیں رکھی۔ (التبلیغ صفحہ ۵۷ حصہ ۱۰) بارات اور شادی کا بیان بارات ہندوئوں کی ایجاد اور ان کی رسم ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ بارات وغیرہ ہندوئوں کی ایجاد ہے کہ پہلے زمانہ میں امن نہ تھا اکثر راہزنوں (اور ڈاکوئوں) سے دوچار ہونا پڑتا تھا اس لئے دولہا‘ دلہن اور اسباب زیور وغیرہ کی حفاظت کے لئے ایک جماعت کی ضرورت تھی‘ اور حفاظت کی مصلحت سے بارات لے جانے کی رسم ایجاد ہوئی اور اسی وجہ سے فی گھر ایک آدمی لیا جاتا تھا کہ اگر اتفاق سے کوئی بات پیش آئے تو ایک گھر میں ایک ہی بیوہ ہو اور اب تو امن کا زمانہ ہے اب اس جماعت کی کیا ضرورت ہے۔ اب حفاظت وغیرہ تو کچھ مقصود نہیں صرف رسم کا پورا کرنا اور نام آوری مد نظر ہوتی ہے۔ (عضل الجاہلیہ صفحہ ۳۶۷‘ اصلاح الرسوم صفحہ ۶۲) بارات کی قطعاً ضرورت نہیں صاحبو! ان رسموں نے مسلمانوں کو تباہ کر ڈالا ہے اسی لئے میں نے منگنی کا نام قیامت صغریٰ اور شادی (بارات) کا نام قیامت کبریٰ رکھا ہے۔ اب تو بارات بھی شادی کا رکن اعظم سمجھا جاتا ہے ( اور اس کے بغیر شادی ہی نہیں ہوتی) اس کے لئے دولہا والے اور کبھی دلہن والے بڑے بڑے اصرار اور تکرار کرتے ہیں اور اس سے غرض ناموری (شہرت) اور تفاخر ہے‘ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا رشتہ کیا اور رشتہ (طے کرنے) کے وقت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود تھے‘ لیکن نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ خود موجود نہ تھے‘ بلکہ معلق نکاح ہوا تھا کہ ان رضی علی یعنی علی رضا مندی ظاہر کریں۔ چنانچہ جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا رضیت اب نکاح تام ہوا۔ میر امطلب یہ نہیں کہ اس قصہ کو سن کر دولہا بھاگ جایا کرے شاید بعض لوگ ایسی سمجھ کے بھی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ بارات وغیرہ کے تکلف کی ضرورت نہیں۔ حضور