اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کی نگاہ میں یہ نہایت سرسری معاملہ ہے حتیٰ کہ مہر کی قلت و کثرت (کمی زیادتی) میں گفتگو کے وقت بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے۔ یہ لوگ صریح اقرار کرتے ہیں کہ مہر محض نام ہی کرنے کو ہوتا ہے دینے لینے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۲۷ جلد ۲) جس کا مہر کی ادائیگی کا ارادہ نہ ہو وہ زانی ہے خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اس (مہر) کو سرسری سمجھنا اور ادا کی نیت نہ رکھنا اتنی بڑی سخت بات ہے کہ حدیث میں اس پر بہت سخت وعید آئی ہے۔ کنز العمال اور بیہقی میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کا کچھ مہر ٹھہرائے پھر یہ نیت رکھے کہ اس کے مہر میں سے کچھ اس کو نہ دے گا یا اس کو پورا نہ دے گا تو وہ زانی ہو کر مرے گا اور اللہ تعالیٰ سے زانی ہو کر ملے گا۔ (ایضاً جلد ۲ کنز العمال صفحہ ۲۴۸ جلد ۸) جو مہر ادا نہ کرے وہ خائن اور چور ہے اسی حدیث میں ایک جزء اور بھی ہے وہ یہ کہ اگر کسی سے کچھ مال خریدے اور اس کی قیمت ادا کرنے کی نیت نہ رکھے یا کسی کا کچھ دَین (قرض وغیرہ) ہو اور اس کو ادا نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ شخص موت کے و قت اور قیامت کے روز خیانت کرنے والا اور چور ہو گا اور ظاہر ہے کہ مہر بھی ایک دَین (قرض ) ہے جب اس کے ادا کی نیت نہ ہوئی تو حدیث کے اس دوسرے جز کے اعتبار سے یہ شخص خائن اور چور بھی ہوا تو ایسے شخص پر دو جرم قائم ہوئے۔ زانی ہونے کا اور خائن و سارق ہونے کا‘ کیا اب بھی یہ کوتاہی قابل تدارک (اصلاح) نہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۲۷ جلد۲) سب سے آسان علاج یہ ہے کہ مہر کم مقرر کیا جائے اس کا تدارک (اور علاج) ظاہر ہے کہ (مہر) ادا کرنے کی پکی نیت رکھی جائے مگر تجربہ اور وجدان شاہد ہے کہ اکثر عادت کے مطابق یہ نیت اسی وقت ہو سکتی ہے جس پر عادۃً قدرت ہو ورنہ نیت کا محض خیال ہوتا ہے وقوع نہیں ہوتا (کیونکہ) ظاہر ہے کہ جس شخص کو سو روپے دینے کی قدرت نہ ہو وہ عادۃً لاکھ سوا لاکھ بلکہ دس ہزار پانچ ہزار دینے پر بھی قادر نہیں جب قادر نہیں تو اس کے ادا کی نیت نہ رکھنے کے سبب سے ضرور اس وعید کا محل بنے گا پس اس کے سوا کچھ صورت نہیں کہ وسعت سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے اور چونکہ اکثر زمانوں میں اکثر لوگوں میں وسعت کم ہے اس لئے اسلم (بہتر اور سلامتی کا) طریقہ یہی ہے کہ مہر کم ہو۔ (ایضاً صفحہ ۱۲ جلد ۲) شرعی دلیل قواعد شرعیہ سے تحمل ما لا یطیق (یعنی اپنی حیثیت سے زائد کسی چیز کا تحمل کرنا) اس کی ممانعت آئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ((لا ینبغی للمومن ان یذل نفسہ قیل یا رسول اللہ وکیف یذل نفسہ۔ قال یتحمل من البلا ما لا یطیقہ)) ’’کسی مومن کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! وہ اپنے آپ کو کس طرح ذلیل کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا ایسی مصیبت کا تحمل کرتا ہے جس کی طاقت نہیں رکھتا‘‘