اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کا مقابلہ ہے یا نہیں اور جب مقابلہ ہے تو واجب الترک (اس کا چھوڑنا ضروری) ہے یا نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشورہ کے لئے جمع کیا جاتا ہے تو بالکل غلط ہے وہ تو بے چارے خود پوچھتے ہیں کہ کونسی تاریخ لکھیں۔ جو پہلے سے گھر میں خاص مشورہ کر کے معین کر چکے ہیں وہ بتلا دیتے ہیں اور وہ لوگ لکھ دیتے ہیں پھر اکثر لوگ آ نہیں سکتے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے بجائے بھیج دیتے ہیں وہ مشورہ میں کیا تیر چلائیں گے‘ کچھ بھی نہیں۔ یہ نفس کی تاویلیں ہیں سیدھی بات کیوں نہیں کہتے کہ صاحب یوں ہی رواج چلا آتا ہے اسی رواج کا عقلاً و نقلاً مذموم اور واجب الترک ہونا بیان ہو رہا ہے غرض اس رسم کے سب اجزاء خلاف شرع ہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۵۳) اور اگر مشورہ ہی کرنا ہے تو جس طرح اور امور میں مشورہ ہوتا ہے کہ ایک دو عاقل مصلحت اندیش اصحاب سے رائے لے لے بس کفایت ہو گئی گھر گھر کے آدمیوں کو بٹورنا کیا ضروری ہے۔ (ایضاً) منگنی کی رسموں سے بات پکی ہو جاتی ہے یہ خیال غلط ہے لوگ کہتے ہیں کہ منگنی میں یہ باتیں (مروجہ رسوم) ہونے سے پختگی ہو جاتی ہے۔ صاحبو ! میں نے غیر پختہ جڑتے ہوئے اور پختہ ٹوٹتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اس لئے یہ سب اوہام (شیطانی خیالات) ہیں کہ پختگی ہو جاتی ہے یہ پرانی تاویل ہے کہ اس سے وعدہ کا استحکام ہو جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنی زبان کا پکا ہے اس کا ایک مرتبہ کہنا ہی کافی وافی ہے اور جو زبان کا پکا نہیں وہ منگنی کر کے بھی خلاف کرے تو کیا کوئی توپ چلا دے گا۔ چنانچہ بہت جگہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی مصلحت سے یا کسی لالچ سے منگنی چھڑا لیتے ہیں۔ اس وقت وہ استحکام کس کام آتا ہے اور جو کچھ خرچ ہوا وہ کس کام آیا غرض یہ تاویل صحیح نہیں صرف دھوکہ ہے۔ اور اگر استحکام (اور پختگی) ہو تب بھی ہم کو تو وہ کرنا چاہئے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۳۶۲ و ۴۵۱) منگنی کی رسم‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا نمونہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کیا کہ کوئی رسم وغیرہ نہیں کی اور یہ رسمیں اس وقت موجود ہی نہ تھیں۔ یہ تو بعد میں لوگوں نے نکالی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا نکاح کیا نہ اس میں منگنی (کی رسم) تھی نہ مہندی تھی نہ نشانی تھی‘ منگنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں) چپ چاپ آ کر بیٹھ گئے اور شرم کی وجہ سے زبان نہ ہلا سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے خبر ہو گئی ہے کہ تم فاطمہ کا پیغام لے کر آئے ہو‘ سو مجھ سے جبرئیل کہہ گئے ہیں کہ خدا کا حکم ہے کہ علی سے فاطمہ کا نکاح کر دیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے منظور فرمالیا‘ بس منگنی ہو گئی نہ اس میں مٹھائی کھلائی گئی نہ کوئی مجمع ہوا یہ نہیں ہوا کہ لال ڈوری ہو‘ کوئی جوڑا ہو‘ مٹھائی تقسیم ہو۔ (حقوق الزوجین)