اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے۔ ولی کم کر کے اس کا نقصان کرتا ہے جس کا اس کو حق نہیں۔ (الافاضات قدیم صفحہ ۳۲ جلد ۲) جن صورتوں میں ولی کو مہر مثل سے کم مقرر کرنا جائز نہ ہو جیسا کہ فقہی مسائل میں مذکور ہے وہاں اس پر عمل کی صورت یہ ہے کہ سب لوگ متفق ہو کر اپنے عرف کو بدلیں جس سے خود قلیل (کم) مقدار ہی مہر مثل بن جائے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۵) مہر کی ادائیگی سے متعلق ضروری مسئلہ بجائے روپیہ کے مکان وغیرہ دینا ایک کوتاہی شوہر کی طرف سے یہ ہوتی ہے کہ اپنی رائے سے بیوی کو کوئی چیز خواہ زیور کی قسم سے ہو یا سامان اور کپڑے کی قسم سے یا مکان اور زمین‘ بیوی کو دے دیتے ہیں اور اس کے نام کر کے خود نیت کرتے ہیں کہ میں مہر دے چکا اور مہر ادا کر دیا۔ سو سمجھ لینا چاہئے کہ مہر کے بدلے میں یہ چیزیں دینا بیع (خرید و فروخت) ہے اور بیع میں دونوں جانب سے رضا مندی شرط ہے پس اگر ان چیزوں کا مہر میں دینا منظور ہے تو بیوی سے صریح الفاظ میں پہلے پوچھنا چاہئے کہ ہم تمہارے مہرمیں یہ چیزیں دیتے ہیں تم رضامند ہو؟ پھر اگر وہ رضا مند ہو تو جائز ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۷) مہر کی ادائیگی میں نیت شرط ہے‘ بعد میں نیت کرنے کا اعتبار نہیں اگرچہ وہ مال عورت کے پاس موجود ہو سوال: زکوٰۃ میں تصریح ہے کہ اداء زکوٰۃ کے وقت اگر نیت نہ کی ہو تو جب تک مال فقیر کے قبضہ میں باقی رہے زکوٰۃ کی نیت کر لینا جائز ہے تو اگر کسی نے بیوی کو مہر دیا لیکن دیتے وقت نیت نہ کی تو کیا اس پر قیاس کر کے قیام مال فی بدھا (یعنی جب تک مال اس کے قبضہ میں ہے) نیت کرنا جائز ہے۔ اور نیت لاحقہ سے مہر ادا ہو جائے گا یا پھر دینا پڑے گا؟ جواب: جب دینے کے وقت کچھ نیت نہیں کی تو ظاہر ہے کہ یہ تملیک ہبہ ہوئی ادائے دین نہیں ہوئی اور در مختار کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدیہ ہونے کے بعد مہر نہیں بنتا۔ ((ولوبعث الی امراتہ شیئا ولم یذکر جھۃ عند الدفع غیر جھۃ المھر)) بخلاف زکوٰۃ کے کہ خود زکوٰۃ بھی تبرع ہے اور ہدیہ بھی تبرع (لیکن) یہاں انقلاب غیر تبرع کی طرف لازم نہیں آتا اس لئے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور مہر ادا نہ ہو گا۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۹۴ جلد ۲) نہایت اہم مسئلہ‘چاندی سونے کے مہر کی ادائیگی میں کس وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا ایک اور اہم مسئلہ قیمت لگانے کے متعلق معلوم کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ (مثلاً) اگر واجب ہو ایک چیز اور لینے کے وقت دوسری چیز اس کی قیمت لگا کر لی جائے تو یاد رکھنا چاہئے کہ جس قدر اس وقت وصول کیا جاتا ہے۔ (صرف) اسی کا حساب کرنا چاہئے بقایا کا حساب اگر دوسرے وقت اسی جنس سے کیا جائے تو اس دوسرے وقت کے نرخ (بھائو) کا اعتبار ہو گا سابق نرخ (پہلے بھائو) پر صاحب حق مجبور نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک کاشتکار کے ذمہ چالیس سیر گندم ہے پھر اس سے یہ طے پایا کہ اچھا اس کے