اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلامی اور ملیدہ کی رسم (عورتیں) دولہا کی زیارت‘ بارات کے تماشا کو دیکھنا فرض اور تبرک سمجھتی ہیں۔ جس طرح عورت کو اپنا بدن اجنبی مرد کو دکھلانا جائز نہیں‘ اسی طرح بلا ضرورت اجنبی مرد کو دیکھنا بھی احتمال فتنہ کی وجہ سے ممنوع ہے۔ (لیکن کچھ بھی ہو) نوشہ گھر میں بلایا جاتا ہے اور اس وقت پوری بے پردگی ہوتی ہے اور بعض باتیں بے حیائی کی اس سے پوچھی جاتی ہیں جس کا گناہ اور بے غیرتی ہونا محتاج بیان نہیں۔ نوشہ کے گھر میں جانے کے وقت کوئی احتیاط نہیں رہتی‘ بڑی گہری پردہ کرنے والیاں آرائش کئے ہوئے اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ یہ اس کی شرم کا وقت ہے یہ کسی کو نہ دیکھے گا‘ بھلا یہ غضب کی بات نہیں؟ اول تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ کسی کو نہ دیکھے گا‘ مختلف طبیعتوں کے لڑکے ہوتے ہیں جن میں اکثر تو آج کل شریر بھی ہیں پھر اگر اس نے نہ بھی دیکھا تو تم کیوں اس کو دیکھ رہی ہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ لعنت کرے اللہ تعالیٰ دیکھنے والے پر اور (اس پر) جس کو دیکھے۔ غرض اس موقع پر دولہا اور عورتیں سب گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۶۱‘ ۶۲‘ ۷۱) جوتا چھپانے اور ہنسی مذاق کرنے کی رسم دولہا جب گھر میں جاتا ہے تو سالیاں اس کا جوتا چھپا کر جوتا چھپائی کے نام سے کم از کم ایک روپیہ (اور آج کل دس روپیہ) لیتی ہیں۔ شاباش ایک تو چوری کریں اور الٹا انعام پائیں اول تو ایسی مہمل ہنسی کہ کسی کی چیز اٹھائی اور چھپا دی‘ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ پھر یہ کہ ہنسی دل لگی کا خاصہ ہے کہ اس سے بے تکلفی بڑھتی ہے بھلا اجنبی مرد (بہنوئی) سے ایسا تعلق و ارتباط پیدا کرنا خود شرع کے خلاف ہے۔ پھر اس انعام کا حق لازم سمجھنا یہ بھی جبر اور تعدی (زیادتی) حدود ہے بعض جگہ جوتا چھپانے کی رسم نہیں مگر اس کا انعام باقی ہے کیا واہیات بات ہے۔ (ایضاً صفحہ ۸۱‘۸۲) دلہن کا قرآن ختم کرانے کی رسم سوال: یہاں رسم ہے کہ دلہن کی رخصتی کے وقت سب عورتیں دلہن کا ختم قرآن کراتی ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ معلمہ جس نے لڑکی کو قرآن پڑھایا ہے وہ آتی ہے اور لڑکی دلہن بنی ہوئی قرآن پڑھنا شروع کرتی ہے‘ گھر میں شور و غل مچتا رہتا ہے اور لڑکے والوں کا جلد رخصت کرنے کا تقاضا ہوتا ہے مگر جب تک لڑکی قرآن ختم نہ کر لے رخصت نہیں کی جاتی۔ ختم کرنے پر نقدی روپے دوپٹے جوڑے دیئے جاتے ہیں اس کو اتنا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اگر کوئی ختم نہ کرائے تو لعن طعن ہوتا ہے اس کو حقیر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ لو ختم قرآن بھی نہ ہونے دیا اور اس کو بھی ناجائز کہہ دیا۔ پس علمائے دین سے استفتاء ہے کہ رخصتی کے وقت ختم قرآن کی کچھ اصلیت ہے یا نہیں اور اس رسم کو توڑنے والا گنہگار ہے یا مستحق ثواب؟ جواب: اہل علم کے سمجھنے کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ غیر لازم کو لازم سمجھنا بدعت ضلالت (گمراہی) ہے اور اس کے تارک (نہ کرنے والے) یا مانع (منع کرنے والے) پر ملامت کرنا اس کے بدعت ہونے کو او ر زیادہ موکد کر دیتا ہے۔ اور غیر اہل علم کے لئے اتنا اور اضافہ کیا جاتا ہے کہ اگر دلہن کے سسرال والے بھی