اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انصاری قریش میں سے تو نہیں لیکن باوجود قریشی نہ ہونے کے چونکہ عالمگیری میں قول صحیح اس کو کہا ہے کہ عرب سب باہم کفو ہیں اس لئے قریشی و انصاری کفو سمجھے جائیں گے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ کفاء ت کا اعتبار دفع عار کے لئے ہے اور عار کا دار و مدار عرف پر ہے۔ عرفاً (آج کل) انصاری قریشی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اور متقدمین کے زمانہ میں گو مساوات نہ ہو گی (مگر آج کل ہے) اس لیے اختلاف زمانہ سے یہ حکم بدل گیا۔ (ایضاً صفحہ ۳۷۱ جلد ۲) خلاصہ کلام کفاء ت کے متعلق ایک مولوی صاحب کے جواب میں فرمایا کہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کفاء ت کی قید معلل ہے علت کے ساتھ اور وہ علت عرفی عزت و ذلت ہے۔ مثلاً شیخ زادہ چاہے فاروقی ہو یا صدیقی ہو یا انصاری ہو یا عثمانی ہو ان کے آپس میں تناکح (نکاح کرنا) عرف میں موجب استنکاف (عرفی ذلت کا باعث) نہیں پس یہ سب باہم کفو ہوں گے۔ ان میں اس کی بھی قید نہیں ہو گی کہ ماں عربی النسل ہو کیونکہ عزت میں یہ سب برابر سمجھے جاتے ہیں۔ (الافاضات الیومیہ حصہ سوم قدیم صفحہ ۲۰۰) عجمی عالم عربی عورت کا کفو نہیں گو بعض فقہاء نے عجمی عالم کو عربیہ کا کفو کہا ہے مگر در مختار میں تصریح ہے کہ عجمی مرد عربی عورت کا کفو نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ عالم یا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۱۱ جلد ۲‘ فتح القدیر ودر مختار) ایک عام غلطی ایک (عام ) کوتاہی یہ ہے کہ بعض دیہاتی لوگ تمام پردیسیوں کو رذیل اور ذلیل سمجھتے ہیں گویا ان کے نزدیک شرافت چند بستیوں میں منحصر ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص باہر سے کوئی نکاح کر کے لے آئے۔ تو برادری کی عورتیں ہر گز اس کو اپنے برابر نہیں سمجھتیں۔ پھر اس کی اولاد کی شادی برادری میں مصیبت ہو جاتی ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۱۰ جلد ۲) دین کے اعتبار سے کفاء ت (مساوات) منجملہ ان اوصاف کے جن کا شریعت نے کفاء ت میں اعتبار فرمایا ہے ایک دین بھی ہے اور اس میں بھی نسب کی طرح عورت کا مرد سے کم درجہ کا ہونا مضر نہیں البتہ مرد کا عورت سے کم درجہ کا ہونا مضر ہے۔ اور مرد کی بد دینی تین طرح کی ہے ایک اعتقادی اصولی‘ دوسری اعتقادی فروعی‘ تیسری اعتقادی عملی پہلی قسم جیسے عورت مسلمان ہو اور مرد غیر مسلمان ہو خواہ یہودی نصرانی ہو یا مجوسی بت پرست و دہری۔ اس کا حکم ظاہر ہے کہ نکاح صحیح نہ ہو گا۔ دوسری قسم جیسے عورت سنیہ ہو اور مرد مبتدع (بدعتی) ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کی بدعت