اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مروجہ جہیز کے مفاسد اور خرابیاں مگر اب جس طور سے اس کا رواج ہے اس میں طرح طرح کی خرابیاں ہو گئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ اب ہدیہ مقصودرہا نہ صلہ رحمی بلکہ ناموری اور شہرت اور رسم کی پابندی کی نیت سے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بری اور جہیز دونوں کا اعلان ہوتا ہے۔ معین اشیاء ہوتی ہیں خاص طرح کے برتن بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ جہیز کے اسباب بھی معین ہیں کہ فلاں چیز ضروری ہو اور تمام برادری اور گھر والے اس کو دیکھیں گے جہیز کی تمام چیزیں عام مجمع میں لائی جاتی ہیں اور ایک ایک چیز سب کو دکھلائی جاتی ہے اور زیور (اور جہیز) کی فہرست سب کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ (آپ خود) فرمایئے کہ یہ پوری ریا (دکھلاوا) ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ زنانہ کپڑوں کا مردوں کو دکھلانا کس قدر غیرت کے خلاف ہے۔ اگر صلہ رحمی مقصود ہوتی تو کیف ما اتفق جو میسر آتا بطور سلوک کے دے دیتے اسی طرح ہدیہ اور صلہ رحمی کے لئے کوئی شخص قرض کا بار نہیں اٹھاتا لیکن ان دونوں رسموں کو پورا کرنے کے لئے اکثر اوقات مقروض بھی ہوتے ہیں گو سود ہی دینا پڑے اور گو باغ ہی فروخت یا گروی ہو جائے پس اس میں التزام ما لا یلزم‘ اور نمائش اور شہرت‘ اور اسراف وغیرہ سب خرابیاں موجود ہیں۔ اس لئے یہ بھی بطریق متعارف (مروجہ طریقہ سے) ممنوعات کی فہرست میں داخل ہو گیا ہے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۵۶‘ ۵۷) سامان جہیز بعض چیزیں ایسی دی جاتی ہیں جو کبھی کام نہیں آتیں سوائے اس کے کہ گھر کی جگہ گھیر لیں مثلاً چوکی اور نواڑ کا پیڑھا‘ کہ یہ اس تکلف کی ہوتی ہیں کہ ان کو کام میں لاتے ہوئے ترس آتا ہے اور حقیقت میں وہ کام کے قابل ہوتے بھی نہیں۔ کیونکہ تکلف کی چیز نازک ضرور ہوا کرتی ہے اور اس کی نزاکت اور خوبصورتی کی وجہ سے ایک طرف احتیاط سے رکھ دیا جاتا ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ رکھے رکھے گل سڑ جاتے ہیں اور کبھی کام نہیں آتے۔ اگر بیٹی کو لخت جگر سمجھ کر دینا ہے تو کیا ایسی ہی چیز دینی چاہئے تھی جو اس کے کام کبھی نہ آئے۔ اصل یہ ہے کہ یہ چیزیں بیٹی کو دی ہی نہیں جاتیں۔ صرف تفاخر اور دکھلاوے کے لئے دی جاتی ہیں اس میں جتنا جس کا حوصلہ ہوتاہے بڑھ کر قدم رکھتا چلا جاتا ہے ایک نے دس برتن اور پچاس جوڑے دیئے تو دوسرا نو برتن اور انچاس جوڑے نہیںدے گا‘ ایک بڑھا کر ہی دے گا کہ قرض دار ہی ہو جائے۔ سود پر قرض لینا گوارا کرتا ہے‘ برادری کے دبائو سے غریب آدمی بھی عاقبت برباد کر تا ہے۔ اور غریب ہی کی کیا تخصیص ہے۔ غریب کے اخراجات غریب جیسے ہوتے ہیں۔ اور امیر کے اخراجات امیر کے سے ہوتے ہیں۔ امیر لوگ بھی ان رسموں کی بدولت قرض سے نہیں بچتے۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۵۰) مروجہ جہیز کی بنیاد محض تفاخر اور نام و نمود پر ہے غور کر کے دیکھا جائے تو رسموں کی بنا اور اصل بھی تفاخر ہے حتیٰ کہ بیٹی کو جو چیز جہیز میں دی جاتی ہے اس کی اصل بھی یہی ہے بیٹی لخت جگر کہلاتی ہے ساری عمر تو اس کے ساتھ یہ برتائو رہا کہ چھپا چھپا کر اس کو کھلاتے تھے کہ اچھا ہے کوئی لقمہ ہماری بیٹی کے پیٹ میں پڑ جائے گا تو کام آئے گا۔ دوسرے کو دکھانا بھی پسند نہ تھا