اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر اتفاقاً کسی منکوحہ (اجنبی لڑکی) سے کسی غیر مرد کا عشق ہو جائے تو بہتر ہے کہ انکا نکاح کر دیا جائے۔ (تعلیم الدین) بہت زیادہ حسین بیوی ہونے میں بھی کبھی فتنہ ہوتا ہے آج کل لوگ منکوحہ عورتوں میں حسن و جمال کو دیکھتے ہیں حالانکہ راحت اور فتنوں سے حفاظت آج کل اسی میں ہے کہ بیوی زیادہ حسین وجمیل نہ ہو حسن و جمال کی کمی قدرتی وقایہ ہے عرض کرنے پر فرمایا گو حسن و جمال خدا کی نعمت ہے لیکن آج کل اس میں فتنہ کا احتمال غالب ہے۔ (کبھی فتنہ اس طرح ہوتا ہے کہ حسین بیوی پر فریفتہ ہو کر ماں باپ کو ناراض کر کے اور دین سے دوری اختیار کرکے فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کا سبب یہی بیوی کا عشق ہو تا ہے ) (حسن العزیز صفحہ ۷۲۱ جلد ۱) ایک مظلوم عورت کی داستان اور خوبصورتی کی وجہ سے نکاح ہونے کا انجام فرمایا آج کل ایک بی بی کا خط آیا ہے تقریباً چالیس برس کا عرصہ ہوا مجھ سے بیعت ہوئی تھیں یہ بی بی نہایت دیندار ہیں۔ خاوند کے ستانے اور بے مروتی اور بے وفائی کی شکایتیں لکھی ہیں جس کو پڑھ کر بے حد دل کو قلق اور صدمہ ہوا لوگوں نے بے حد ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے اس غریب نے یہاں تک لکھا ہے کہ روتے روتے میری بینائی کمزور ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی جی میں آتا ہے کہ کپڑے پھاڑ کر باہر نکل جائوں‘ یا کنویں میں ڈوب کر مرجائوں‘ مگر دین کے خلاف ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتی دل کو سمجھا کر رک جاتی ہوں۔ دن رات رونے کے سوا کوئی کام نہیں۔ فرمایا بڑے ظلم کی بات ہے آخر رونے کے سوا بے چاری کرے بھی کیا ان بی بی کے عقد ثانی کو تقریباً سترہ برس کا عرصہ ہوا۔ ان صاحب نے بڑی آرزئوں اور تمنائوں سے ان بی بی سے نکاح کیا تھا اس وقت رنگ و روغن اچھا ہو گا۔ اس وقت تو سفارشیں کراتے پھرتے تھے لٹو ہورہے تھے (محض حسن و جمال کی بناء پر) اب ضعیفی کا وقت ہے بے چاری کو منہ بھی نہیں لگاتے‘ حتیٰ کہ نان و نفقہ سے بھی محتاج ہے میاں عمر میں چھوٹے اور بیوی بڑی ہیں کیا ٹھکانا ہے اس سنگدلی و بے رحمی کا‘ کسی بات کا بھی اثر نہیں اگر وہ بے چاری کہتی بھی ہے کہ میری دیرینہ خدمات کا کیا یہی ثمرہ ہے‘ تو کہتے ہیں کہ تو نے خدمات ہی کون سی کی ہیں۔ نہ معلوم خدمات کی فہرست ان کے ذہن میں کیا ہے‘ جس کو یہ پورا نہ کر سکیں‘ یہ انجام ہوتا ہے خوبصورتی کی بنیاد پر رشتہ کرنے کا یا بددین سے رشتہ کرنے کا۔ مال کی بنیاد پر نکاح کرنے کی مذمت بعض نکاح کرنے والے منکوحہ (لڑکی) کے گھر مال کو دیکھتے ہیں اور در حقیقت یہ اس سے بھی بد تر ہے کہ منکوحہ یا اس کے اولیاء (یعنی لڑکی والے) مرد کے مال کو دیکھیں‘ کیونکہ یہ تو کسی درجہ میں اگر اس میں غلونہ ہو امر معقول (سمجھ میں آنے والی بات) ہے۔ کیونکہ مرد پر عورت کا مہر اور نفقہ واجب ہوتا ہے تو استطاعت رکھنے (اور اس بناء پر مال) کو دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ایک قسم کی ضروری مصلحت ہے۔ البتہ اس میں ایک قسم کا غلو ہو جاتا ہے کہ اس کو اور ضروری اوصاف پر ترجیح دی