اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عرب کے مہر کے متعلق یہ رسم ہے کہ عورتیں مردوں کی چھاتی پر چڑھ کر مہر وصول کرتی ہیں اور ہندوستان میں اس کو بڑا عیب سمجھا جاتا ہے ہندوستان کی عورتیں مہر کو زبان پر بھی نہیں لاتیں اور خاوند کے مرتے وقت اکثر بخش ہی دیتی ہیں۔ (التبلیغ صفحہ ۵۱ جلد ۷) مہر وصول کرنے سے نفقہ ساقط نہیں ہوتا اور حقوق ختم نہیں ہوتے عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے مہر لے لیا تو پھر ہمارا کوئی حق خاوند (شوہر) کے ذمہ نہ رہے گا۔ یعنی نان و نفقہ اور دوسرے حقوق معاشرت سب ساقط ہو جائیں گے یہ اعتقاد سراسر غلط ہے سب حقوق الگ الگ ہیں ایک حق دوسرے پر مبنی نہیں۔ مہر لینے سے دوسرا کوئی حق ساقط نہیں ہوتا۔ بہت سی عورتوں کا گمان یہ ہے کہ اگر ہم مہر لے لیں گے تو پھر نفقہ میں ہمارا کچھ حق نہ رہے گا اس وجہ سے خود مانگنا تو درکنار بعض خدا کی بندیاں مرد کے دینے پر بھی اس ڈر کے مارے نہیں لیتیں۔ یہ بالکل غلط اور باطل امر ہے اس اعتقاد باطل کا اثر یہ ہوتا ہے کہ شوہر مہر ادا کرتا ہے اور عورت نہیں لیتی اور نہ معاف کرتی ہے ایسی صورت میں اگر شوہر پر حق کی ادائیگی کا غلبہ ہو تو پریشان ہوتا ہے کہ ذمہ داری سے برأت کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۹ جلد ۲) اگر عورت مہر قبول نہ کرے اور نہ معاف کرے تو خلاصی کس طرح ہو سوال: ایک عورت اپنا مہر نہ لیتی ہے نہ معاف کرتی ہے ایسی حالت مرد کس طرح سبکدوش ہو سکتا ہے۔ جواب: اس صورت میں شوہر مہر کا مال بیوی کے سامنے اس طرح رکھ دے کہ اگر وہ اٹھانا چاہے تو اٹھا سکے اور رکھ کر یہ کہہ دے کہ یہ تمہارا مہر ہے اور یہ کہہ کر مجلس سے ہٹ جائے تو مہر ادا ہو گیا۔ مرد سبکدوش ہو جائے گا‘ پھر اگر وہ عورت نہ اٹھائے گی کوئی اور اٹھائے گا تو اس عورت کا روپیہ ضائع ہو گا۔ شوہر سبکدوش ہو جائے گا اور اگر ضائع ہونے کے خیال سے پھر شوہر نے اٹھا لیا تو وہ شوہر کے پاس امانت رہے گا۔ شوہر کی ملک نہ ہو گا اس میں شوہر کو تصرف کرنا جائز نہ ہو گا۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۳۰۳جلد ۲‘ اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۹ جلد ۲) شوہر کے انتقال کے وقت عورت کا مہر معاف کرنا ایک کوتاہی یہ ہے کہ شوہر کے مرض الموت میں عورت مہر معاف کر دیتی ہے۔ اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر خوشی سے معاف کردے تو معاف ہو جاتا ہے اور اگرعورتوں کی زبردستی گھیرا گھیری سے معاف کرے تو عند اللہ معاف نہیں ہوتا اور اوپر والوں کو (یعنی بڑوں بوڑھوں کو) اس طرح مجبور نہ کرنا چاہئے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۷ جلد ۲) شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو مہر معاف کرنا بہتر ہے یا نہیں ظاہراً تو معاف کر دینا بہتر معلوم ہوتا ہے لیکن نظر غائر سے (معلوم ہوتا ہے کہ) لینا افضل ہے کیونکہ (شوہر کے ورثاء کا) اس معافی چاہنے کی بنیاد حرص ہے جو کہ مذموم ہے اور معاف کرنا اس مذموم کی اعانت ہے۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۳۰۴ جلد ۲) بعض مواقع پر معاف کرنا مصلحت بھی نہیں ہوتا مثلاً بیوی کی میراث کا حصہ اس کی بسر کے لئے کافی نہ ہو اور ورثاء سے رعایت و کفالت (یعنی اخراجات برداشت کرنے) کی امید نہ ہو‘ ایسے موقع پر تو بجائے معافی کی ترغیب کے معاف نہ کرنے کی رائے