اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیجئے کپڑا پہننے کو آپ جائز سمجھتے ہیں مگر اس کے لئے شریعت میں ایک قید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں۔ ((من لیس ثوب شھرۃ)) یعنی ’’جو شخص کوئی کپڑا دکھاوے کی غرض سے پہنے گا اس کو خدا تعالیٰ قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے‘‘ اسی طرح کھانا کھلانے کو آپ جائز کہتے ہیں اس میں بھی ایک قید ہے۔ اب ان رسوم میں دیکھ لیجئے کہ وہ افعال مع ان قیدوں کے موجود ہیں یا بلا قیدوں کے اس میں آج کل کے عقل مند بھی دھوکہ کھاتے ہیں۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۴۶) رسوم میں عقلی خرابیاں اور دنیوی نقصانات رسوم میں عقلی خرابیاں دیکھئے کہ جس مال کو محنت و جانفشانی سے حاصل کیا گیا ہو اس کو اس بے دردی سے خرچ کر دیا جائے کہ مالک کے قرض تک ادا نہ ہوں اور اس کے بچے محتاج ہو کر رہ جائیں۔ ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں کہ جن کے ماں باپ خوش حال تھے اور بہت کچھ ترکہ (میراث کا مال) چھوڑا تھا مگر انہوں نے برادری کی خوشی اور نمود (دکھلاوے) کے لئے سب (رسوم) میں لگا دیا۔ تھوڑی دیر کے لئے خوب واہ واہ ہوئی اپنے آپ محتاج ہو گئے گھر پھونک تماشا دیکھ یہ کون سی عقل کی بات ہے کہ ایک ایک لقمہ برادری کو کھلا کر خود فقیر ہو گئے‘ دین سے قطع نظر عقل سے بھی کام لیا جائے تو اس کا عکس (الٹا) ہونا چاہئے۔ یعنی برادری سب مل کر پیسہ پیسہ دیں تاکہ ایک شخص کے پاس کافی رقم جمع ہو جائے اور برادری کو معلوم بھی نہ ہو مگر جب کہ ہم کو دین یا عقل سے کام کرنا بھی ہو تو۔ ہمارا امام تو ہوائے نفسانی اور خواہش نفسانی ہے۔ اس کے سامنے کچھ نہیں سوجھتا کہ کیا کر رہے ہیں اور اس کا انجام کیا ہو گا۔ نفس اور شیطان آپ کا دشمن ہے کبھی آپ کے فائدے کی بات نہ بتلائے گا۔ ہمیشہ وہ باتیں بتلائے گا جو دین کے خلاف اور عقل سے بھی خارج ہوں۔ ہماری طینت (طبیعت) میں ایسی جہالت داخل ہو گئی ہے کہ اچھے برے کام میں تمیزہی نہیں رہی اپنا نفع و نقصان بھی نظر نہیں آتا بس خواہش کو امام بنا لیا ہے۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۱۷۲‘ ۱۷۳) ان رسوم کی بدولت لوگ مقروض اور کنگال ہو گئے شادی بیاہ سب کو پیش آتے ہیں۔ غریب آدمی کو بھی خبط سوجھتا ہے کہ اگر ذرا بھی گھٹیا کام کروں گا تو ساری عمر برادری منہ کالا کرے گی۔ اس واسطے سود پر قرض لینا گوارہ کر لیتا ہے برادری کے دبائو سے غریب آدمی بھی عاقبت برباد کرتا ہے اور غریب ہی کی کیا تخصیص ہے غریب کے اخراجات غریب ہی کے سے ہوتے ہیں۔ اور امیر کے اخراجات امیر کے سے ہوتے ہیں۔ امیر لوگ بھی ان رسوم کی بدولت قرض سے نہیں بچتے۔ امیروں کی تو منگنی بھی معمولی شادیوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کو ان کی حیثیت کے موافق برادری زیر بار کرتی ہے۔ اور دین کے برباد کرنے کے ساتھ دنیا میں بھی ان کو ذلیل کر کے چھوڑتی ہے۔ اچھی اچھی ریاستیں دیکھی گئی ہیں کہ ایک شادی کی بدولت غارت ہو گئیں۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۵۰) ابھی لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلیں جب سارا گھر نیلام ہو جائے گا اس وقت شریعت کے موافق شادی کرنے کی سوجھے گی۔ صاحبو! شادیوں میں بہت اختصار کرنا چاہئے تاکہ بعد میں افسوس نہ ہو کہ ہائے ہم نے یہ