اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی اجازت کے بغیر نکاح نہ ہو گا‘ اس لئے قاعدے کے موافق پھر اجازت لینی چاہئے۔ $ نکاح (صحیح) ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ کم سے کم دو مردوں کے یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے کیا جائے‘ اور وہ لوگ اپنے کانوں سے نکاح ہوتے ہوئے اور وہ دونوں لفظ ’’قبول ہے‘‘ کہتے سنیں تب نکاح ہو گا۔ (بہشتی زیور حصہ چہارم) ولی کسے کہتے ہیں لڑکے اور لڑکی کے نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اس کو ولی کہتے ہیں لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہوتا ہے اگر باپ نہ ہو تو دادا‘ وہ نہ ہو تو پردادا اگر یہ لوگ نہ ہوں تو سگا بھائی اگر سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا یعنی باپ شریک بھائی‘ پھر بھتیجا پھر بھتیجا کا لڑکا‘ پھر اس کا پوتا پھر سوتیلا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑپوتے‘ وہ کوئی نہ ہوں تو باپ کا چچا پھر اس کی اولاد‘ اگر باپ کا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑ پوتے کوئی نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اس کے لڑکے پھر پوتے پڑپوتے وغیرہ۔ یہ کوئی نہ ہوں تو ماں ولی ہے‘ پھر دادی پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں پھر پھوپھی پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ۔ اور نابالغ شخص کسی کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور کافر کسی مسلمان کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور مجنون پاگل کا ولی نہیں ہو سکتا۔ (بہشتی زیور صفحہ ۲۰۰ جلد ۴) لڑکی کا ازخود نکاح کر لینے کی خرابی اس میں کلام نہیںکہ عاقلہ بالغہ (سمجھدار جوان لڑکی) خود اپنے نکاح کی بات چیت ٹھہرا لے اور ایجاب و قبول کر لے تو نکاح منعقد ہو جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا بلاضرورت و مصلحت (شرعی) کے ایسا کرنا کیسا ہے سو یہ امر نہ شرعاً پسندیدہ ہے نہ عقلاً۔ شرعاً تو اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک ہے۔ ((لا تنکحوا النساء الا من الاکفاء ولا یزوجھن الا اولیاء)) (دارقطنی‘ بیہقی) ’’یعنی عورتوں کا نکاح نہ کرو مگر ان کے کفو میں اور ان کی شادی نہ کریں مگر ان کے اولیاء۔‘‘ یہ حدیث بھی عمل ہی کے واسطے ہے اور کوئی تو باطنی راز ہے جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے (لڑکی کے نکاح کے لئے) اولیاء کا واسطہ تجویز فرمایا اگرچہ ہم کو اس کی علت اور وجہ نہ بھی معلوم ہو۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۵۰) نکاح کے معاملے میں صفائی اور دیانتداری سے کام لینا چاہئے چونکہ نکاح بھی ایک معاملہ ہے جس کا تعلق دو نئے آدمیوں سے ہے اس لئے زوجین (ہونے والے میاں بیوی) کو اس میں نہایت دیانت و صفائی سے کام لینا واجب ہے کہ کسی قسم کا خلجان محتمل (یعنی الجھائو کا احتمال) نہ رہے جہاں تک اپنا ذہن رسائی کرے ہر بات صاف کر دے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۲۷ جلد ۲)