اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عورت کو جب حمل ٹھہر جائے تو جوش اور شہوت والا آدمی اگر اس عورت سے صحبت کرے گا تو جنین (بچہ) پر برا اثر پڑے گا اور حمل گر جانے کا اندیشہ ہے لہٰذا اس عورت کو آرام دے اور صحبت ترک کر دے۔ حاملہ کے ساتھ صحبت کی ممانعت کی وجہ ایک تو اسقاط حمل کا اندیشہ ہے دوسرے اس حمل سے جو اولاد پیدا ہو گی اس کے اخلاق و اطوار میں والدین کے شہوانی جوش مرکوز ہو کر بد اخلاقی پیدا کر دیں گے۔ کیونکہ شہوت کے جوش کا اثر جنین (بچہ) پر ضرور پڑتا ہے اور وہ طبیعت میں فطری ہو جاتا ہے۔ (ایضاً صفحہ ۲۰۳) دودھ پلانے والی عورت سے صحبت کرنا دودھ پلانے والی عورت سے صحبت کرنا (بعض اعتبار سے) بچہ کے لئے مضر ہے لیکن اطباء (ڈاکٹروں) نے اس امر کی اصلاح کے لئے بعض دوائوں کے ساتھ (تدبیر) بتلائی ہے لہٰذا یہ قادح (مضر) نہ رہا۔ (المصالح العقلیہ) منع حمل کی تدبیر اختیار کرنا سوال: بعض عورتیں جسم کی کمزور ہوتی ہیں اور بچے بہت جلد جلد ہوتے ہیں اس سے ان کی بھی تندرستی خراب ہوجاتی ہے اور بچے بھی دودھ خراب ہونے سے دائم المرض ہو جاتے ہیں اس صورت میں مانع حمل دوائی کھانا جائز ہے نہیں۔ جواب: آئندہ کے لئے حمل قرار نہ پانے کی تدبیر اختیار کرنا بلا عذر مذموم ہے۔ مسئلہ ثانیہ (صور ت مذکورہ) میں چونکہ عذر صحیح ہے اس لئے مانع حمل دوا کھانا جائز ہے۔ (امداد الفتاویٰ جلد ۴) اسقاط حمل یعنی حمل گرانے کا حکم بلا عذر اسقاط حمل ناجائز ہے (اگرچہ جان نہ پڑی ہو) اور عذر و ضرورت سے جب تک کہ حمل میں جان نہ پڑی ہو جائز ہے‘ اگر تحقیق فن سے حمل میں جان پڑنا محتمل ہو تب تو مطلقاً حمل گرانا حرام ہے اور موجب قتل نفس زکیہ ہے (یعنی قتل کا گناہ ہو گا) اگر جان پڑ جانے کے بعد اسقاط حمل کیا تو اگر مردہ ہی گر گیا تو پانچ سو درہم ضمان لازم ہے اور وہ باپ کو ملے گا اور اگر زندہ ہو کر مر گیا تو پوری دیت یعنی خون بہا اور کفارہ قتل واجب ہے۔ (البتہ) اگر جان نہیں پڑی سو اگر کوئی عذر صحیح (شرعی) ہو تو اسقاط جائز ہے۔ (یعنی) اگر اس عورت کو یابچہ کو اس حمل سے کچھ نقصان ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں (اور عذر صحیح کا یہی مطلب ہے) خلاصہ کلام یہ ہے کہ سب میں اشد (گناہ کبیرہ) حمل حی (یعنی زندہ حمل) کا اسقاط ہے اور اس سے کم حمل غیر حی کا اور اس سے کم مانع حمل دوائوں کا استعمال۔ البتہ عذر مقبول سے آخر کے دو امر (یعنی مانع حمل تدبیر یا جان پڑنے سے پہلے حمل کا اسقاط) جائز ہیں اور امر اول (یعنی زندہ حمل کا اسقاط) ہر حال میں حرام ہے۔ (امداد الفتاویٰ جلد ۴) لواطت