انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
درست نہیں۔(6)تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعدسے صبح صادق تک ہے،پس عشاء کی نماز پڑھے بغیر تراویح پڑھنا درست نہیں ،لہٰذا دیر سے آنے والے کو جبکہ تراویح شروع ہوچکی ہو ،پہلے عشاء کی نماز پڑھنی چاہیئے اُس کے بعد تراویح میں شامل ہونا چاہیئے ہاں! تراویح کا وتر سے پہلے ہونا ضروری نہیں ،وتر کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں ، لہٰذادیر سے آنے والے کو جبکہ اُس کی تراویح کی رکعتیں رہ گئی ہوں تو وہ اِمام کے ساتھ وتر میں شامل ہوجائےاور وتر کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں اداء کرلے۔(7)تراویح میں ہر چار رکعات کے بعد وقفہ بہتر ہے اور اس میں کوئی بھی دعاء،ذکر یا تلاوت وغیرہ کی جاسکتی ہے ،حتی کہ وقت ملے تو نوافل بھی اداء کیے جاسکتے ہیں،اس وقفہ میں کوئی مخصوص دعاء حدیث سے پڑھنا ثابت نہیں ۔اورجو مشہور دعاء مساجد میں آویزاں کی جاتی ہےوہ حدیث سے تو ثابت نہیں لیکن لازم سمجھے بغیرپڑھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔(8)کسی نابالغ یا ڈاڑھی مُنڈے کو تراویح میں اِمام بنانا درست نہیں ، کوئی بالغ یا صحیح باشرع امام دستیاب نہ ہو تو ”اَلَم تَر کَیفَ“سے آخر تک پڑھنے پر ہی اکتفا کرلینا چاہیئے۔(9)تراویح پورے مہینے پڑھنا چاہیئے ،صرف کچھ دن جوش و جذبات میں پڑھ کر چھوڑدینا یا پانچ دس روزہ ختم کرکےتراویح کو ترک کردینا صحیح نہیں ،یہ بڑی محرومی کی بات ہے۔(10)قرآن کو اس قدر جلد پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں بڑا گناہ ہے، اس صورت میں نہ امام کو ثواب ہوگا، نہ مقتدی کو۔اِس لئے تراویح کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیئے جہاں قرآن کریم کو بہتر سے بہتر انداز میں ترتیل کے ساتھ پڑھاجاتاہو۔ (11)جماعت کے ساتھ کسی وجہ سے اگر تراویح رہ بھی جائے تو اُس کو بالکلیہ ترک