ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
حضرت عبدالعزیز دباغ کا ایک واقعہ فرمایا کہ ایک بزرگ جن کا نام عبدالعزیز دباغ ہے بڑے صاحب کرامت و خوارق و مقبول و مشہور گذرے ہیں کچھ پڑھے لکھے بھی نہ تھے ان کے ملفوظات ان کے بعض مریدوں نے جمع کئے ہیں نہایت عجیب و غریب ہیں ابریز نام ہے ۔ ان کا واقعہ لکھا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ذرا جھک کر چلتے تھے جیسے کوئی اوپر سے نیچے کو جاتا ہو اور یہ بھی پوچھا گیا کہ معلوم نہیں کیسی رفتار ہو گی ہم اس کے مشاہدے سے محروم ہی رہے انہوں نے فرمایا کہ کل تم فلاں جنگل میں آ جانا ۔ اگلا دن ہوا تو سب لوگ اس جنگل میں جمع ہوئے ۔ آپ نے ایک خاص انداز سے چل کر دکھلایا ۔ بس ناظرین کا یہ حال تھا کہ سب کے حواس باختہ تھے کسی کے ہوش بجا نہ تھا ایک تحیر کا عالم تھا کسی محبوب کی بھی رفتار ایسی نہ ہو گی ۔ کسی کمال کی بدولت اکمل سمجھنا تو جائز ہے مگر افضل سمجھنا جائز نہیں فرمایا کہ ایک مرتبہ متعدد علماء کا مجمع تھا اور کبر و تواضع کے متعلق اس پر بحث تھی کہ ایک عالم اپنے کو جاہل سے کمتر کیونکر سمجھ لے ۔ یہ تو تکلیف مالایطاق ہے کیونکہ جب علم و فضل پڑھا ہے تو یہ کیسے سمجھے کہ میں پڑھا ہوا نہیں ایک حافظ اپنے کو غیر حافظ کیسے سمجھ سکتا ہے ( ہمارے حضرت نے نہایت جامع اور مختصر جواب فرمایا ) کہ کسی کمال کے سبب اکمل سمجھنا تو جائز ہے مگر افضل بمعنے مقبول سمجھنا جائز نہیں پس یہ سمجھنا کہ میں عالم ہوں کوئی حرج نہیں مگر اس پر اپنے کو مقبول عنداللہ سمجھنا یہ بڑا خطرناک ہے بس یہ سمجھے کہ ممکن ہے کہ باوجود اس کے جاہل ہونے کے اس میں کوئی ایسی خوبی ہو جس سے وہ اللہ تعالی کو پسند آ جائے اور ہم گو بڑے عالم ہوں مگر ہم میں کوئی ایسی برائی ہو جس سے ہم ان کو پسند نہ آئیں پھر ہم کس کام کے ۔ صبر افضل ہے یا شکر ؟ فرمایا کہ صبر افضل ہے یا شکر ؟ اس میں علماء میں اختلاف ہوا ہے بعض شکر کو افضل کہتے ہیں اور بعض صبر کو اور ہر ایک کے پاس دلائل ہیں میرے خیال میں اس میں