ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
ہو گئے جب مولوی مسعود احمد صاحب طب پڑھ کر تشریف لائے ہیں تب آپ نے اس کام کو چھوڑ دیا کہ بھائی اب مسعود آ گئے ان سے رجوع کرو ۔ ایک ڈپٹی کلکٹر نے حضرت مولانا گنگوہی کے لئے شمس العلماء کے خطاب کی مخالفت کی فرمایا کہ ایک ڈپٹی صاحب مولانا گنگوہی کے پاس حاضر ہوئے مولانا معمولی گفتگو کر کے درس میں مشغول ہو گئے ان کو اس پر رنج ہوا اور دوسروں سے شکایت کی کہ بڑے برے اخلاق ہیں ( اس پر ہمارے حضرت نے تبسم سے فرمایا کہ الحمد للہ مولانا کی یہ سنت مجھ کو بھی نصیب ہے اور میں بھی اسی طرح بدنام ہوں سنا ہے کہ سال کے ختم یا شروع پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ خطابات تقسیم ہوتے ہیں مولانا کے لئے بھی شمس العلماء کا خطاب تجویز ہوا تھا اس میں ان ڈپٹی صاحب سے بھی پوچھا گیا چونکہ یہ حاکم پر گنہ تھے تو انہوں نے مخالفت کی کہ مناسب نہیں ہے اس پر ڈپٹی صاحب نے خوش ہو کر مولانا کے آدمیوں سے فرمایا کہ ہم سے مولانا اچھی طرح نہ ملے ہم نے بھی خطاب نہ ملنے دیا مولانا نے سنا تو فرمایا کہ بھائی میں تو ان کا بڑا ممنون ہوں کہ مجھے اس بلا سے نجات دی میں تو دعا کرتا ہوں ہمارے حضرت نے فرمایا کہ جب سنا ہو گا تو بڑا کٹا ہو گا کہ یہ کام کیا تو تھا رنج کے لئے مگر ہو گئی خوشی جیسے سلیمان درانی نے فرمایا ہے کہ اگر شیطان وسوسہ ڈالے تو خوش ہو کیونکہ شیطان دشمن ہے جب تم وسوسہ سے خوش ہو گئے اور وہ تمہاری خوشی چاہتا نہیں تو وسوسہ ڈالنا چھوڑ دے گا ۔ حضرت مولانا گنگوہی حضرت حاجی صاحب کے عاشق تھے فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب پر آج کل کے نوجوان مولوی اعتراض کرتے ہیں اور حضرت مولانا گنگوہی حالانکہ امام وقت تھے مگر کبھی آپ کی زبان سے اعتراض نہیں نکلا اور اعتراض تو کیسا مولانا تو بالکل عاشق فانی تھے ایک دفعہ مولانا گنگوہی مولوی صادق الیقین صاحب سے فرماتے تھے کہ فلاں صاحب نے کیسی بری بات کہی کہ حضرت تو بدعتوں میں مبتلا ہیں ہماری نسبت تو قطع ہو گئی دیکھو کیسی رنج کی بات ہے بھلا ان باتوں