ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
ہے ۔ اب اگر کوئی کھانا کھا کر شکر ادا نہ کرے کہ کیا معلوم مضر ہو یا نافع ہو تو یہ اس کی نادانی ہے اگر آدمی کوشش کرے اور اس کے اسباب اختیار کرے تو نجات کا وعدہ ہے یہی حسن خاتمہ ہے ۔ اضطرارا کوئی گمراہ نہیں کیا جاتا جو ہوتا ہے اپنے اختیار سے ہوتا ہے اور خاتمہ کی خبر نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ معلوم نہیں کل کو ہم خود اپنے ارادہ و اختیار سے کیا کر گزریں گے یہ نہیں ہے کہ شاید اللہ تعالی اس پر ہم کو مضطر کر دیں گے پھر نجات کا وقوع ایک مستقل نعمت ہو گی ۔ جنت میں جا کر جنتی یوں کہیں گے الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ و اورثنا الارض نتبواء من الجنۃ حیث نشاء فنعم اجر العاملین اس کا شکر وہاں ادا کریں گے جیسے ایک کھانے کا شکر ہوتا ہے اور ایک جو اس سے قوت ہو گی اس کا شکر ہوتا ہے ۔ رہا تقدیر کا راز یہ تو جنت میں بھی کما حقہ منکشف نہ ہو گا ۔ البتہ تردد نہ رہے گا اور عارفین کو یہاں بھی کسی قسم کا تردد نہیں رہتا ۔ ان حضرات پر ایک سکون اور اطمینان کی شان ہوتی ہے ۔ عارفین کو قیل و قال سے انقباض ہوتا ہے فرمایا کہ ہمارے حضرت حاجی صاحب جب کسی مضمون پر تقریر فرماتے اور کوئی شبہ پیش کرتا تو فرماتے کہ یہ مدرسہ نہیں یہ کام کرنے کے ہیں کر کے دیکھو ۔ ہمارے حضرت نے فرمایا مدرسین کو قیل و قال کی عادت ہوتی ہے اور عارفین کو اس سے انقباض ہوتا ہے جو کام میں مشغول ہوتا ہے اس کو حقیقت منکشف ہو جاتی ہے عوام کی طرح ان کی حالت نہیں ہوتی ان کو اطمینان ہوتا ہے چونکہ حضرت کے یہاں حقائق میں تردد نہ تھا اس لئے سوال و جواب سے تنگ ہوتے تھے جیسے اگر کوئی کسی سے کہے کہ آفتاب نکل آیا ۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اس کا ممنون ہو اس سے مباحثہ شروع کر دے تو اس کو کس قدر ناگوار ہو گا ۔ اہل بصیرت کو حقائق میں ایسا اطمینان ہوتا ہے جیسے باپ کی بابت کسی کو شبہ نہیں ہوتا کہ یہ میرا باپ ہے ۔ حالانکہ اس میں بھی غلطی ہو سکتی ہے ۔ ایسا اطمینان ہو جانا حقائق میں بڑی نعمت ہے ۔ سلوک شروع کرنے سے پہلے شیخ کی خدمت میں رہنا مناسب ہے فرمایا کہ سلوک شروع کرنے سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ چند یوم شیخ کی