ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کے سوا کچھ نہیں اور معقولات میں دلائل عقلیہ اور نظریہ کی ضرورت ہے مگر اس میں انہوں نے دلیل عقلی کے غیر ضروری ہونے کی کوئی تفصیل نہ لکھی تھی ۔ جس سے ہر مذہب والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا مذہب حق ہے کیونکہ اب دلیل عقلی کی تو حاجت ہی نہیں رہی بس ندوہ اور دیوبند میں یہی تو ایک فرق ہے اب یہاں اہل دیوبند کی ضرورت ہے وہ یہ کہیں گے کہ اس کے ساتھ یوں اور لکھا جاتا ہے کہ واقعی فروع میں تو ایسا ہی ہونا چاہیئے ان میں دلائل عقلیہ نظریہ کی ضرورت نہیں لیکن اصول میں دلائل عقلیہ کی ضرورت ہے خدا کا خدا اور رسول کا رسول ہونا تو ہم دلائل عقلیہ سے ثابت کر دیں گے لیکن فروع میں تفویض محض ہو گی ہاں یہ کہنا ہو گا جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی آپ کی یوں ہی خوشی ہے مہرباں یونہی سہی اور اہل مذاہب باطلہ اپنے اصول پر دلیل عقلی صحیح قائم نہیں کر سکتے ۔ مختلف مدارس پر اکبر الہ آبادی کا تبصرہ فرمایا کہ اکبر نے مدارس میں خوب موازنہ کیا ہے ہے دل روشن مثال دیوبند اور ندوہ ہے زبان ہوشمند اب علی گڑھ کی بھی تم تشبیہ لو ایک معزز پیٹ اس کو مان لو علی گڑھ والوں کے سامنے جو اکبر کا کلام پڑھا جاتا ہے تو ہنستے ہیں کیونکہ ان کو ظریف مانتے ہیں اور اس کی ایسی مثال ہے کہ حیدر آباد میں انبہٹہ کے ایک پیر ہیں انہوں نے ایک کامدار جوتہ بنا رکھا ہے جو رئیس ان کے پاس آتا ہے بس چار پانچ اس کے رسید کرتے ہیں وہ لوگ خوش ہوتے ہیں ( کیونکہ وہ پہننے کا نہیں ہے ) ایسے ہی اکبر کا کلام ان لوگوں کے لئے ان پیر صاحب کے کامدار جوتہ کے مشابہ ہے کہ کامدار ہے ۔