ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کر حضرت بریرہ سے فرمایا کہ تم مغیث سے نکاح کر لو انہوں نے حضور سے سوال کیا کہ حضور یہ حکم ہے یا مشورہ آپ نے فرمایا یہ مشورہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں مانتی ہمارے حضرت نے فرمایا کہ اب تہ کوئی مرید اپنے پیر سے ایسی بات کہہ دے فورا ہی کہیں گے مجلس سے نکال دو ۔ مردود ہو گیا۔ فلسفیوں اور بزرگوں کے کلام کا فرق فرمایا کہ فلسفیوں کے کلام میں ضابطہ کے دلائل ہوتے ہیں اور عرفا کے کلام میں ایسے دلائل نہیں ہوتے بات یہ ہے کہ شفیق کا کلام ہمیشہ ایسے دلائل سے خالی ہوتا ہے ۔ یہی شان قرآن و حدیث کی ہے ۔ دیکھئے باپ اپنے بچہ کو سمجھاتے وقت دلائل کب بتاتا ہے وہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ دیکھو بیٹا اس کام کو نہ کرنا یہ بہت برا کام ہے پھر کرتا ہے تو پھر کہتا ہے دیکھو تم نے پھر وہی کام کیا پھر سہ بارہ پھر اسے مارتا اسی وجہ سے بزرگوں کے کلام میں سادگی ہوتی ہے انہیں عام مسلمانوں سے شفقت ہوتی ہے قرآن و حدیث میں اگر فلسفی دلائل ہوتے تو مشتبہ ہوتا کہ یہی مصنوعات ہیں مگر ایسا نہیں ہے ۔ اولیاء اللہ کے تزکرہ کا اثر فرمایا کہ جب اولیاء اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو میرے ہوش بجا نہیں رہتے ایک قسم کا وجدہ ہوتا ہے اور علماء قشر کے ذکر سے ایسا نہیں ہوتا ۔ بعضوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے اور بعضوں کا باطن اور اس سے متعلقہ حکایات فرمایا کہ قلوب کی حالت جدا جدا ہوتی ہے بعضوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے اور باطن نہایت گندہ ۔ اس لئے نفس ظاہر پر دھوکہ نہ کھانا چائے ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ کے روبرو ایک مقدمہ مع شہادت پییش ہوا آپ ایک گواہ سے واقف تھے اور ایک سے واقف نہیں تھے ۔ حاضرین میں سے پوچھا کہ اس کو کوئی جانتا ہے ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں بہت اچھا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ان کو محض نماز ہی پڑھتے دیکھا ہے یا کبھی سفر میں بھی اس کے ساتھ رہے ہو اور کوئی معاملہ بھی ان سے پڑا ہے اس نے کہا معاملہ نہیں پڑا نہ سفر میں رہا ظاہری حالت اچھی دیکھی