ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
مجتہد نے کہا کہ سلیم چشتی چہ گیدی خراست بادشاہ چونکہ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھا ۔ ملا دو پیازہ نے بادشاہ کو مخاطب کر کے کہا کہ جو کچھ مجتہد صاحب کہتے ہیں وہ آپ نے سنا بادشاہ کو اس جملہ پر نہایت غیظ ہوا اور حکم دیا کہ دربار سے پا بجولاں نکال دیا جائے ۔ اس پر نور جہاں نے خلوت میں جہانگیر سے شکایت کی کہ میرے وطن اور مذہب کے مجتہد کی برسر دربار اس طرح بے عزتی کی جہانگیر نے کیا عمدہ جواب دیا ہے کہ جاناں بتوجاں دادم نہ کہ ایمان ۔ یہ ایک عام مشہور حکایت ہے جس سے مقصود ایک طرافت کا نقل کرنا ہے اس پر کسی تحقیق کا مدار نہیں ۔ تربیت میں بصیرت کی ضرورت ، اور عہد رسالت کا ایک واقعہ فرمایا کہ تربیت بہت ہی مشکل ہے بڑے مبصر کا کام ہے ایک واقعہ سناتا ہوں کہ ایک چور ایک شیخ سے مرید ہو گیا تھا ۔ خانقاہ میں روزانہ جوتیوں کو ادل بدل کر دیا کرتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر لوگوں کو بڑی پریشانی ہوتی تھی لوگوں نے اس کی ٹوہ لگائی تو دیکھا کہ رات کے وقت وہی چور صاحب اٹھے اور جوتیوں کو لوٹ پوٹ کرنے لگے لوگوں نے صبح کو پیر صاحب کی خدمت میں پیش کر کے شکایت کی کہ یہ روز جوتیوں کو ادل بدل کر دیتے ہیں جس سے ہم کو صبح کے وقت تلاش کرنے میں سخت تکلیف ہوتی ہے پیر نے بلا کر پوچھا تو کہا کہ حضرت میں نے چوری سے توبہ کی ہیرا پھیری سے توبہ نہیں کی ۔ بات یہ ہے کہ جب رات کے دو بجتے ہیں تو میرے نفس میں عادت کے موافق چوری کا تقاضا ہوتا ہے میں اس کے دفع کے لئے یہ حیلہ کرتا ہوں اور نفس کو اس سے بہلاتا ہوں کہ یہ بھی ایک صورت چوری کی ہے اگر آپ مجھ سے یہ چھڑا دیں گے تو پھر میں چوری کرنے لگوں گا ۔ پیر صاحب نے کہا کہ بھائی تم کو اجازت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عورت نے توبہ ( تکشف کے حصہ پنجم یعنی حقیقۃ الطریقہ میں حدیث صدو شصت و ششم اور حدیث دوصد وسی ہشتم کا مضمون قابل ملاحظہ ہے ) کے وقت یہ عرض کیا تھا کہ حضرت مجھے ایک ادھار رونا ہے وہاں جا کر رونا ضروری ہے آپ نے اول انکار فرمایا پھر کئی بار کے بعد اجازت دے دی تھی مگر وہ عورت اس موقع پر نہیں روئی ( رواہ الترمذی عن اسماء بنت یزید ) لوگ