ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
تفصیل کی ضرورت ہے وہ یہ کہ بعض مواقع میں تو شکر افضل ہے اور بعض میں صبر جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روزہ کی حالت میں بیوی کے بوسہ کی اجازت چاہی تو آپ نے منع فرما دیا اور دوسرے نے اجازت چاہی تو اجازت دیدی بات یہ ہے کہ مخاطب کے اختلاف سے احکام میں اختلاف ہو جاتا ہے ۔ ہر موقع کا حکم جدا ہے ( کیونکہ پہلا اجازت مانگنے والا شخص جوان تھا جس کا حد پر رہنا دشوار تھا ممکن تھا کہ نوبت بجماع پہنچے اس لئے اسے منع فرما دیا ۔ اور دوسرے سے اس قسم کا اندیشہ نہ تھا اس لئے اس کو اجازت دیدی ۔ جامع ) اس اختلاف مذاق کا تربیت میں لحاظ کرنا بڑے محقق کا کام ہے ہمارے مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص سے دوام نہ ہو سکے اس کا یہی دوام ہے کہ کبھی کرے کبھی نہ کرے یہ بھی ایک قسم کا دوام ہی ہے اس پر ایک شبہ ہو سکتا ہے کہ یہ وہ دوام تھوڑا ہی ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فضیلت فرمائی ( ہمارے حضرت نے فرمایا ) مولانا نے جن خاص مذاق والے لوگوں کے لئے فرمایا ہے ان کا یہی علاج ہے وہ لوگ وہ ہیں کہ دوام کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں ان کو تشفی کی ضرورت ہوتی ہے جو معین ہوتی ہے دوام مطلوب میں اس کو عارفین سمجھتے ہیں مصلحین کے جو ایسے خلاف ظاہر اقوال ہیں انہوں نے خاص خاص موقعوں پر جیسا مناسب ہوا ہے فرمایا ہے وہ تحقیقات نہیں ہیں معالجات ہیں آپ لوگوں کی اس پر تو نظر ہے نہیں ویسے ہی اعتراض کر دیتے ہیں ایک طبیب کا واقعہ یاد آیا کہ کسی مریض کو نسخہ لکھ کر دیا وہ اس کاغذ ہی کو جوش دے کر گھول کر پی گیا اور اگلے دن پھر آیا اور کہا کہ حکیم صاحب اس نسخہ سے فائدہ ہوا ایک اور نسخہ لکھ دیجئے حکیم صاحب نے کہا کہ نسخہ دکھلاؤ تو کہا کہ وہ تو گھوٹ چھان کر پلا دیا ۔ اس پر حکیم صاحب نے کچھ نہ کہا ( تا کہ اس کا اعتقاد خراب نہ ہو یہ رعایت ہے مذاق کی ) اور دوسرا نسخہ لکھ دیا اور کہا کہ اگر کچھ کمی رہ جائے تو اور لکھوا لینا ۔ اس کے بعد ہمارے حضرت نے فرمایا کہ ان سے کوئی یہ نہیں کہتا یہ یہ نفیسی سدیدی میں کہاں لکھا ہے بات یہ ہے کہ بعض مواقع پر غیر دوا کو دوا بنانا بھی معالجہ ہے اب جیسے یہاں غیر دوا کو دوا بنانا اس