ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
گیا یا نہیں سو یہ بات کتاب دیکھ کر امتحان دینے سے بھی معلوم ہو سکتی ہے ۔ باقی رہا حفظ ہونا یہ پڑھنے پڑھانے سے خود ہو جاتا ہے بلکہ طالب علمی کے زمانہ کا حفظ یاد بھی نہیں رہتا اور دماغ مفت میں خراب ہو جاتا ہے میرے یہاں کانپور میں ہمیشہ تقریری امتحان ہوتا تھا اور شروح و حواشی دیکھ کر بھی جواب دینے کی اجازت تھی جس سے سب طلباء دعا دیتے تھے بس اس قدر دیکھ لے کہ اس مقام کو یہ طالب علم مطالعہ سے یا حواشی و شرح کی اعانت سے حل بھی کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اس سے زیادہ بکھیڑا ہے اور اس رائے کو میں نے دوسرے مدراس میں بھی پیش کیا مگر آمنا تو ہے لیکن عملنا نہیں ہے ۔ مدرسہ دیوبند کی سرپرستی کے فرائض فرمایا کہ ایک زمانہ میں بعض لوگ مجھے لکھتے تھے کہ تم دیوبند کے سرپرست ہو یوں نہیں کرتے یوں نہیں کرتے ایک مرتبہ یہاں معترضین کے سرغنہ آئے تھے میں نے ان کو اپنی سرپرستی کے فرائض دکھلا دیئے وہ کہتے تھے کہ ان فرائض کے دیکھنے سے تو کسی کا منہ ہی نہیں جو اعتراض کر سکے اس کا حاصل یہ ہے کہ میں سرپرست بمعنی مشیر کے ہوں حاکم کے نہیں یعنی مجھ سے جن امور میں پوچھا جائے گا میں جواب دے دوں گا اور جن میں نہیں پوچھیں گے اس کا مطالبہ نہ کروں گا کہ کیوں نہیں پوچھا اور رائے دینے کے بعد بھی عدم پابندی پر مواخذہ نہ کروں گا ۔ ہاں عمل کا انتظار ضرور ہو گا اور رائے تو مجھ سے دیگر مدارس کے مہتممین بھی لیتے ہیں مگر اس میں دیوبند کا امتیاز یہ ہے کہ دیگر مدارس میں تو جب وہ پوچھتے ہیں تب رائے دیتا ہوں اور دیوبند بلا پوچھے بھی اگر کوئی بات سمجھ میں آئے گی تو دریغ نہ کروں گا خواہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو ۔ حضرت والا کے تحمل کا ایک واقعہ فرمایا کہ ایک عالم کا کارڈ آیا تھا میں نے اس پر لکھا کہ اس میں مضامین متنوعہ متعددہ کا جواب کیسے ہو سکتا ہے ۔ آج لفافہ ہے اس میں اس کو تسلیم کیا ہے کہ ہاں نہیں ہو سکتا لوگ کہتے ہیں کہ تحمل نہیں کرتے اس کو میں ہی جانتا ہوں کہ کس قدر تحمل کرتا ہوں ۔ آج کئی برس کے بعد ان کو یہ لکھا ہے مدت سے ان کی یہی عادت تھی ۔ کارڈ تو صرف