ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کہتا ہوں اس شہرت پر بھی کسی نے کیا جانا جو کمالات تھے وہ کس قدر تھے کیا ان میں سے ظاہر ہوئے آخر سب ہی کو خاک میں ملا دیا اپنا کہنا کر دکھایا انتہی بقول مولانا محمد یعقوب ۔ کلمہ طیبہ کی برکت سے عذاب قبر رفع ہو جانے کا قصہ مولوی محمد قاسم ( یہ مولانا نانوتوی نہیں ) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں گنگوہ حاضر ہوا تو حضرت کی سہ دری میں ایک کورا بدھنا رکھا ہوا تھا میں نے اس کو اٹھا کر کنوئیں میں سے پانی کھینچا اور اس میں بھر کر پیا تو پانی کڑوا پایا ظہر کی نماز کے وقت حضرت سے ملا اور یہ قصہ بھی بیان کیا آپ نے فرمایا کہ کنوئیں کا پانی تو کڑوا نہیں ہے میٹھا ہے میں نے وہ کورا بدھنا پیش کیا حضرت نے بھی پانی چکھا تو بدستور تلخ تھا آپ نے فرمایا اس کو رکھ دو نماز ظہر کے بعد حضرت نے سب نمازیوں سے فرمایا کہ کلمہ طیب جس قدر جس سے ہو سکے پڑھو اور حضرت نے بھی پڑھنا شروع کیا بعد میں حضرت نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگ کر ہاتھ منہ پر پھیر لئے اس کے بعد بدھنا اٹھا کر پانی پیا تو شیریں تھا اس وقت مسجد میں بھی جتنے نمازیں تھے سب نے چکھا تو کسی قسم کی تلخی نہ تھی بعد میں حضرت نے فرمایا کہ اس بدھنے کی مٹی اس قبر کی ہے جس پر عذاب ہو رہا تھا الحمد للہ کلمہ کی برکت سے عذاب رفع ہو گیا ۔ ( از تحریرات بعض ثقات ) حضرت شاہ ولی اللہ کے مرض الموت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تسلی حضرت گنگوہی فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ شاہ ولی اللہ جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بمقتضائے بشریت بچوں کی صغر سنی کا تردد تھا ۔ اسی وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ تشریف لائے اور فرماتے ہیں کہ ( تو کاہے کا فکر کرے ہے جیسی تیری اولاد ویسی ہی میری ) پھر آپ کو اطمینان ہو گیا مولانا نے فرمایا کہ شاہ صاحب کی اولاد عالم ہوئی اور بڑے مرتبوں پر پہنچی جیسے بھی صاحب فضل و کمال ہوئے ظاہر ہے ۔ ( از تحریرات بعض ثقات ) نفس سے جس قدر دوری ہے اسی قدر قرب حق حاصل ہے مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے استاد مولانا شاہ عبدالغنی فرماتے