ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
کیا اور صبح کو لڑکوں سے کہا کہ واقعی بہت مزہ کی چیز ہے ہمارے حضرت نے فرمایا بس بے ذوق آدمی کی ایسی ہی مثال ہے ۔ اللہ تعالی سے طبعی محبت بھی ہو سکتی ہے فرمایا کہ اسی بے ذوقی کے سبب بعض اہل ظاہر نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ محبت عقلی ہو سکتی ہے طبعی نہیں ہو سکتی کیونکہ جب آنکھ سے نہیں دیکھا تو محبت طبعی کا تحقق کیسے ہو سکتا ہے اس موقع پر حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے جھلا کر لکھا ہے کہ ان کا انکار ایسا ہے جیسا کہ عنین کا انکار لذت جماع سے کہ وہ اس کی حقیقت اور لذت کو جانتا ہی نہیں ہمارے حضرت نے فرمایا کہ لوگوں نے محبت میں اپنی جانیں دیدی ہیں ۔ یہ محبت طبعی نہیں تو کیا ہے ۔ محبت عقلی میں ایسا نہیں ہو سکتا اور انسان تو انسان حیوانوں نے بھی جانیں دے دیں ہیں ۔ حضرت سمنون محب ایک مرتبہ محبت کا بیان فرما رہے تھے ایک چڑیا کوٹھے پر بیٹھی تھی وہ نیچے اتری پھر صبر نہ ہو سکا تو گود میں آ کر بیٹھ گئی ۔ پھر تھوڑی دیر میں سر ٹیک کر مر گئی ۔ غم نہیں جان کا جانباز برے ہوتے ہیں سر جھکا دیں گے کوئی تیغ اٹھائے تو سہی پیراں نمی پرند مریدان می پرانند فرمایا کہ بس جی پیراں نمی پرند مریداں می پرانند کا مضمون ہے ۔ یہی زیادہ شہرت دیتے ہیں ۔ ایک شخص نے مجھ سے روایت بیان کی کہ بعض لوگوں کا میرے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں سوتے میں الگ الگ ہو جاتے ہیں استغفر اللہ اسی لئے میں نے وصایا میں لکھا کہ میری سوانح نہ لکھی جائیں لوگ احتیاط نہیں کرتے کیونکہ اگر احتیاط کرتے ہیں تو ان کے نزدیک کرامت کا ایک عدد جو کم ہو جائے گا پھر ہاتھ پاؤں الگ ہونے کے متعلق بیان کیا کہ دراصل وہ الگ نہیں ہوتے یونہی نظر آتے ہیں ان کا تمثل اس صورت سے ہوتا ہے کہ ان کا اتصال محسوس نہیں ہوتا تصرف سے ایسا ہو جاتا ہے یہ کوئی کمال نہیں ہے ممکن ہے کہ جو چیز موجود نہ ہو اور نظر نہ آئے ۔ نواب وقار الملک نے