ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
ہوا کہ میں نے غلطی کی جو ایک کے بیان پر فیصلہ دے دیا پھر آپ نے استغفار فرمایا اور بظاہر اس میں ایک اشکال ہے کہ آپ نے ایک کے بیان پر فیصلہ کیسے دیا مگر واقع میں اس بیان پر قطعی فیصلہ نہیں دیا تھا ۔ بلکہ معنی وہ قضیہ شرطیہ تھا اس کا مطلب ہی تھا کہ اگر ایسا کیا ہے تو ظلم ہے رہا استغفار تو بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کو قضیہ شرطیہ کی صورت میں استعمال نہیں کیا بلکہ قضیہ حملیہ استعمال کیا اگرچہ قضیہ شرطیہ ہی مراد تھا ۔ مگر لفظوں میں بھی اس کا استعمال ہونا چاہئے تھا ایک صاحب نے عرض کیا کہ یا داؤد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ۔ سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ حکم بالحق نہ تھا ۔ فرمایا کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے یاد رکھنا چاہئے کہ امر و نہی زمانہ مستقبل کے لئے آتا ہے پس یہاں پر ماضی میں حکم بغیر الحق کا اشکال نہیں رہا ۔ بعضوں کو ولا تکن للخائنین خصیما سے یہی شبہ ہو گیا ہے کہ کیا آپ نے خائن کی طرف داری کی تھی جس کی ممانعت ہوئی ۔ سو یہاں بھی یہی معنی ہیں کہ آپ خائنین کی طرف دار نہ بنئے جیسا کہ اب تک نہیں بنے یعنی جیسے ماضی میں بھی نہیں رہے جیسے باپ کہتا ہے کہ ایسا کبھی نہ کرنا جیسا اب تک نہیں کیا ۔ پس صیغہ امر میں دلالت مستقبل پر ہوتی ہے امر کی دلالت زمانہ ماضی پر سمجھنا یہی غلطی ہے اور داؤد علیہ السلام کے اس قصہ کو یہود نے اس طرح سے رنگا ہے کہ آپ کی ننانویں بیویاں تھیں اور ایک لشکری کی صرف ایک بیوی تھی آپ کی اس پر نظر پڑ گئی تو آپ فریفتہ ہو گئے پھر وہ لشکری کسی مہم پر گیا اور وہاں جا کر مارا گیا اس کے قتل کے بعد اسے آپ نکاح میں لے آئے فرشتوں کو نصیحت کے لئے بھیجا تھا توبہ توبہ یہ انبیاء کے ساتھ ایسا خیال بالکل غلط اور برا عقیدہ ہے اور تعجب ہے کہ اس کو بعض مفسرین نے بھی لیا ہے دراصل ان کا فرشتہ ہونا ہی ثابت نہیں بلکہ ظاہرا واقع میں وہ انسان ہی تھے اور ان کا بکریوں کے متعلق مقدمہ تھا فافھم ۔ رمق باطن کے انفاق پر آیت قرآنی سے استدلال فرمایا کہ صوفیہ نے ومما رزقنھم ینفقون میں فیض باطنی پہنچانا بھی مراد لیا ہے سو اگر یہ محض بطور علم اعتبار کے ہو تب تو کچھ شبہ کی گنجائش نہ تھی لیکن میرا جی چاہتا تھا