ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
جہاں خرابی ہوتی ہے وہاں پردہ ہی نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو محض نام کا ہوتا ہے پردہ کے متعلق اکبر الہ آبادی نے خوب لکھا ہے کل بے حجاب چند نظر آئیں بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا اس وقت پردہ اٹھانے کی تحریک کا ثمرہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتا کہ عورتیں بے شرم و حیا ہو کر علانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور خاوندوں کے تصرف سے نکل کر ان کے عیش کو منغض کریں ( تبسم سے فرمایا ) کہ ایک ظریف شخص سے پوچھا گیا کہ آپ پردہ توڑنے کی تحریک میں کیوں شریک نہیں ہوتے فرمایا بھائی اگر ہماری جوانی ہوتی تو ہم بھی شریک ہو جاتے اب یہ خیال ہے کہ تم بے پردگی سے مزے اڑاؤ اور ہم دیکھ دیکھ کر حسرت کریں ۔ حضرت تھانوی کا عامۃ الناس کے ساتھ حسن ظن اور غلاموں کے ساتھ حسن تربیت کا معاملہ فرمایا کہ عام لوگوں میں سے تو اگر کسی کے اندر ننانوے عیب ہوں اور ایک بھلائی ہو تو میری نظر اس بھلائی پر جاتی ہے اور ان ننانوے عیبوں پر نہیں جاتی ۔ اور جس نے اپنے کو تربیت کے واسطے میرے سپرد کیا ہو تو اس میں اگر ننانوے بھلائیاں ہوں اور ایک عیب ہو تو میری نظر اس عیب پر جاتی ہے ۔ ان ننانوے بھلائیوں پر نہیں جاتی ( جامع کہتا ہے سبحان اللہ اس سے حضرت والا کا عامۃ الناس کے ساتھ حسن ظن اور غلاموں کے ساتھ حسن تربیت ظاہر ہے واقعی حضرت رحمت محض ہیں جیسے کوئی شفیق طبیب اپنے مریض کے اندر تھوڑی سی کسر بھی گوارا نہیں کرتا ایسے ہی ہمارے حضرت بھی اپنے خادموں میں کسی کوتاہی کو گوارا نہیں فرماتے اور یہی وجہ ہے جو بعض ناواقف لوگ حضرت کو سخت مزاج اور سخت گیر کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذوق صحیح نہیں یا حضرت والا کی کبھی صحبت میسر نہیں