ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
مولوی محمد حسین عظیم آبادی کی موت کا عجیب واقعہ فرمایا کہ لکھنو میں مولوی محمد حسین صاحب عظیم آبادی مرحوم سے جو میرے خاص احباب میں تھے ایک شخص نے مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی کی موت کی نسبت پوچھا کہ ان کی موت جو سماع میں ہوئی ہے کیسی ہے انہوں نے کہا کہ بھائی ہم بزرگوں کے معاملات کو کیا جانیں ہاں اتنا ضرور کہتے ہیں کہ اگر ایسی حالت پر موت ہوتی جو ظاہرا بھی سنت کے موافق ہوتی تو اچھا تھا اس شخص نے کہا کہ مولویوں کی یہاں بجز اعتراض کے کچھ نہیں لیکن آج تک کسی مولوی نے بھی مر کے تو نہ دکھایا کہا بھائی اول تو موت اختیاری نہیں دوسرے اللہ کے بندے مر کر بھی دکھلا دیتے ہیں خیر وہ مجلس تو ختم ہو گئی اس کو دو تین دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک روز یہ مولوی صاحب ندوہ سے کہ وہاں ملازم تھے عصر کے وقت گھر آئے ( ان کا لڑکا حفظ کرتا تھا بیچاروں کی تمنا مولوی کرانے کی تھی ) گھر میں آ کر لڑکے کو بلایا اور ایک کمرہ میں بیٹھ کر لڑکے سے کہا کہ قرآن شریف سناؤ ( اسی دوران میں مولوی صاحب کی بیوی بھی آ گئی تو بیوی سے فرمایا کہ کیسی گندی پھر رہی ہو غسل کر کے کپڑے بدل کر آؤ وہ چلی گئیں ) لڑکے نے قرآن شریف سنانا شروع کیا ۔ سجدہ کی آیت آ گئی ۔ مولوی صاحب نے فرش پر سجدہ کیا اور اسی حالت میں جاں بحق تسلیم ہو گئے کسی قسم کی بیماری نہ تھی ہاں اختلاج القلب کا مرض ضرور تھا مگر اس وقت وہ بھی نہ تھا بالکل اچھی حالت تھی جب اسی حالت پر بہت دیر ہو گئی تو لڑکے نے ماں کو آواز دی انہوں نے آ کر ہلایا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا ۔ تمام رات رکھا فصد بھی لی گئی ۔ فصد نے خون بھی دیا مگر مر ہی گئے تھے جن لوگوں کو وہ واقعہ یاد تھا انہوں نے اس وقت کہا کہ انہوں نے تو تین چار روز ہوئے کہا ہی تھا کہ اللہ والے مر کر بھی دکھلا دیتے ہیں وہی کر کے دکھلا دیا واقعی سچ کہتے تھے ۔ ہمارے حضرت نے فرمایا کہ مگر ان بیچاروں کی اس قدر شہرت نہ ہوئی جس قدر مولانا محمد حسین الہ آبادی کی ہوئی ۔