ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
رعایت کا معاملہ کر کے بگاڑا ہے وہ یوں سمجھ گئے کہ جس طرح ان لوگوں کو دیں گے لے لیں گے اہل حاجت ہیں اور اگر کسی کے مزاج میں غیرت اور احساس ہو تو اس کا نام نازک مزاج رکھا جاتا ہے ایسے ہی ایک شخص ایک گاؤں سے دو بھیلی لایا میں نے قبول کر لی اور گھر کو بھیجنے لگا ۔ جب کچھ دور لے کر آدمی نکل گیا تو اس نے کہا کہ ایک مدرسہ کے لئے لایا ہوں اور ایک آپ کے لئے مجھے اس پر بڑی غیرت معلوم ہوئی اور اس آدمی کو بلا کر دونوں بھیلی اس کے سپرد کر دیں اور کہا کہ تمیز سیکھ کر آؤ ۔ رہا مدرسہ میں نہ لینا چونکہ اس نے طریقہ ذلت کا اختیار کیا تھا اس لئے نہیں لی ۔ ادب کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں ایک صاحب مجلس میں دونوں گھٹنے ٹیک کر کے پنجے آگے بڑھا کر بیٹھے تھے ان کو اس پر تنبیہ فرمائی اور مجمع کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ایک مرتبہ دو لڑکے چارپائی پر لیٹے تھے میں ان کے پاؤں کی طرف فرش پر بیٹھ کر کام کرنے لگا وہ مجھے دیکھ کر اٹھنے لگے تو میں نے کہا کہ لیٹے رہو انہوں نے کہا یہ تو ادب کے خلاف ہے میں نے کہا کہ جب ادب کا وقت ہو گا ہم خود بتلائیں گے اس وقت بے ادبی کرو گے تو مرمت ہو گی جب وہ بڑے ہو گئے تو بڑے مہذب تھے ۔ ہمارے بزرگ خلوت عرفیہ میں رہنے کو پسند نہیں کرتے فرمایا کہ ہمارے بزرگ خلوت عرفیہ میں رہنے کو پسند نہیں کرتے تھے مولانا گنگوہی سے میں نے ایک مرتبہ اپنے بارے میں پوچھا کہ میرا جی یوں چاہتا ہے کہ سب سے علیحدہ ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاؤں تو فرمایا کہ ہمارے بزرگوں نے ایسا نہیں کیا اس سے شہرت ہوتی ہے مولانا گنگوہی تھوڑی سی دیر کے لئے حجرہ میں تنہا بیٹھتے تھے مولانا خلیل احمد صاحب اور مولانا دیوبندی نے بھی کبھی گوشہ نشینی اختیار نہیں کی ۔ ہاں مولانا رائپوری نے معتد بہ وقت خلوت کا نکال رکھا تھا ( ہمارے حضرت نے مجمع کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا میں تو سب کے سامنے بیٹھتا ہوں تا کہ لوگوں کے عقیدے خراب نہ ہوں بعضوں کا عقیدہ ہوتا ہے کہ حضرت خلوت میں عرش و کرسی کی سیر کر رہے ہوں گے ہاتھ پاؤں بھی