ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کہ تم وہاں جا کر ذکر شغل کرو ( اس میں ایک مصلحت یہ بھی تو ہوتی ہے کہ ایسی جگہ تجویز کرتے ہیں جہاں کوئی زیادہ معتقد نہ ہو ) انہوں نے شیخ کو لکھا کہ یہاں مسلمانوں اور کفار میں نا اتفاقی ہو گئی ہے دعا فرمائیے تو ان بزرگ نے ان کو ڈانٹ کر لکھا کہ ہم نے تم کو خبریں لکھنے کو بھیجا ہے یا کام کرنے کو ایک شخص نے عرض کیا کہ دعا تو سنت ہے پھر کیوں ڈانٹا ۔ فرمایا جی ہاں جس کی سنت فرض سے ( کہ وہ اصلاح نفس ہے ) مانع ہو جائے تو اس سنت سے روکا جائے گا ۔ جس سے اصلاح کا تعلق ہو اس سے قیل و قال یا فقہی اشکال نہیں کرنا چاہئے فرمایا کہ جس شخص سے تعلیم ذکر و شغل کا تعلق ہو اس سے ایسے مسائل فقہیہ نہ دریافت کرے جس میں قیل و قال ہو اس طریق میں یہ قیل و قال بہت مضر ہے اغبیا کو کون سمجھائے یہ ذوقی امر ہے میں تو ایسی باتیں انہیں کی مصلحت سے کہتا ہوں ( ہنس کر فرمایا ) ان کی مصلحت میری راحت اور میرے ذمہ یہ نہیں کہ مصلحت کی وجہ بھی بتاؤں ۔ اتنا بتلا دینا کافی ہے کہ یہ خلاف مصلحت ہے میں نے احباب کو لکھ دیا ہے کہ باطنی حالات کے ساتھ مسائل فقہیہ نہ لکھا کرو ۔ ایک بزرگ سندھی مجھ سے اکثر مسائل فقہیہ پوچھا کرتے تھے اور یہ بھی کہا کرتے کہ مجھے ذکر و شغل سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا میں نے کہا کہ تم مجھ سے مسائل فقہیہ نہ پوچھا کرو اور میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ مولانا خلیل احمد صاحب کو اس فن میں زیادہ مہارت ہے تم ان سے پوچھا کرو ۔ چنانچہ جس دن سے انہوں نے ایسے سوالات بند کئے اسی دن سے فائدہ ہونا شروع ہو گیا ۔ میرا تو مشاہدہ ہے مگر اب بتلائیے کہ دوسروں کو کس طرح سمجھاؤں ۔ طبعی امور بدلتے نہیں فرمایا کہ امور طبعیہ فطریہ بدلتے نہیں ان میں اضمحلال ہو جاتا ہے اور اہل تحقیق بھی اپنے مریدوں کے فطری امر کو نہیں بدلتے کیونکہ اللہ تعالی کی اس میں حکمتیں ہیں اصل مربی تو وہ ہی ہیں نہ معلوم کس کس مصالح کی بناء پر اس کے اندر یہ رکھے ہیں اس لئے ان کے بدلنے کی کوشش بھی نہ کرنا چاہئیے صرف تعدیل کر دی جائے اور مصرف بدل دیا