ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
نیا وردم از خانہ چیزے نخست تو دادی ہمہ ومن چیز تست مصری لہجہ " من لم یتغنا " کے خلاف نہیں ہے غنا قرآن کے بارے میں ایک لطیف تحقیق فرمایا کہ قرآن شریف کا لہجہ بھی ممتاز ہے اس میں ایک خاص موزونیت اور کیفیت سکریہ ہے ورنہ اور عربی عبارت پڑھنے میں یہ بات کیوں حاصل نہیں ہوتی ۔ بعض دلکش لہجہ کی نسبت بعض لوگ کہنے لگتے ہیں کہ غنا ہے مگر غنا ایک لفظ عام ہے اور مطلقا مذموم نہیں البتہ غنائے اصطلاحی مذموم ہے ۔ سو وہ جب تک کہ انطباق علی الوزن الخاص کا قصد نہ کیا جائے متحقق نہیں ہوتا اور دلکش لہجہ سے پڑھنے کے لئے اس انطباق کا قصد لازم نہیں ۔ اب من لم یتغنا کے معنی بالکل صحیح ہیں ۔ ایک مرتبہ سہارنپور میں جلسہ تھا اس میں بہت قراء جمع تھے اس جلسہ میں عربی اور مصری لہجہ میں بھی قرآن شریف پڑھا گیا تھا اس کے بعد میرا وعظ ہوا اس میں میں نے کہا تھا کہ پانی پت والے جو عموما مصری لہجہ پڑھنے والوں کو کہتے ہیں کہ یہ لوگ گاتے ہیں سو اس کی تحقیق یہ ہے کہ قرآن شریف کے شعر ہونے کی نفی خود قرآن شریف میں موجود ہے وما ھو بقول شاعر الخ مگر باوجود اس کے بعض آیات اوزان اشعار پر منطبق ہو گئی ہیں جیسا کہ ہمارے مولانا محمد یعقوب صاحب نے ایک قصیدہ میں یہ آیت فاصبحوا لا یری الا فی مساکنھم کو اشعار میں لیا تھا اور اس آیت کا پورا ایک مصرعہ ہو گیا تھا حالانکہ یہ کوئی شعر نہیں مگر انطباق ہو گیا ۔ تو جس طرح مطلق انطباق علی وزن الخاص سے یہ شعر نہیں ہوتا جب تک کہ خاص اوزان پر قصدا وزن نہ کیا جائے اسی طرح یہاں بھی اگر کوئی تطبیق کا قصد کرے تو غنا ہو گا اور اگر قصد نہ کرے مگر خود انطباق ہو جائے تو وہ غنا نہیں ہو گا بات یہ ہے کہ نہ اسے کھینچ تان کر انطباق علی وزن الخاص کرے اور نہ قصدا پھیکا پڑھے ادائے مخارج و صفات کے ساتھ جو لہجہ بنتا چلا جائے پڑھا جائے کوئی خاص قصد اپنی طرف سے نہ کرے بعد وعظ میں نے اس بیان کی بابت پانی پت کے قراء حاضرین سے پوچھا تو سب نے کہا کہ بڑا ضروری اور صحیح بیان تھا