ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کر کے ناپسند ہوا مگر زبان سے منع نہیں کیا اس پر ایک مولوی صاحب نہ کہا کہ یہ کیا بدعت ہو رہی ہے تم منع نہیں کرتے میں نے کہا میں کیا کروں میرا مذاق ان لوگوں کو معلوم ہے جب یہ نہیں مانتے تو یہ جانیں مولوی صاحب کو میرا یہ عذر سن کر برا معلوم ہوا کہ انہوں نے زبان سے کیوں منع نہیں کیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ جب تک یہ شیرینی بانٹنے والے اپنی آنکھ سے اس کے مفاسد نہ دیکھ لیں گے اس وقت تک منع کرنے سے بھی پکی توبہ نہ کریں گے اور اس حالت میں گو میرے لحاظ سے مان لیں گے مگر دل سے نہ مانیں گے چنانچہ جتنے مفاسد میں نے لکھے ہیں وہ سب انہوں نے اپنی آنکھ سے دیکھ لئے اور آ کر کہا کہ توبہ ہے بڑا ہی واہیات کام ہے میں تو آئندہ اس کے پاس بھی نہ جاؤں گا ہمارے حضرت نے فرمایا کہ شیخ سمجھتا ہے کہ نصیحت کے لئے کس وقت کونسا طرز اختیار کرنا چاہیئے اس میں بڑی بصیرت کی ضرورت ہے میرے ایک دوست نے ندوہ میں مدرسی کی اجازت چاہی میں نے اجازت دیدی اس پر لوگوں نے اعتراض کیا مگر میں یہ سمجھتا تھا کہ چند روز میں یہ وہاں کے مفاسد دیکھ کر خود چھوڑ دیں گے چنانچہ تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ وہ سب چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ رہے اور بصیرت کی ساتھ نفرت ہوئی ۔ حضرت تھانوی کا نصیحت کرنے کا حکیمانہ طرز فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم ریل میں ایک جگہ سفر کر رہے تھے ہمارے پاس ایک ڈپٹی کلکٹر صاحب بھی بیٹھے باتیں کر رہے تھے نماز کا وقت ہوا تو ہم نے نماز پڑھی خواجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہ تمہارے معتقد ہیں تم ان کو نماز کی نصیحت کرو میں نے کہا کہ نماز کی حقیقت سے تو واقف ہی ہیں کہ پڑھنے اور نہ پڑھنے پر عذاب و ثواب ہو گا ۔ یہاں تبلیغ فرض تو ہے نہیں مستحب ہے میں ایک مصلحت دینیہ کو اس مستحب پر ترجیح دیتا ہوں مگر اس کہنے سے ان کا جی نہیں بھرا خیر جب ہم نماز پڑھ چکے اور ان کے پاس آ کر بیٹھے میں نے پھر اسی طرح جس طرح کہ پہلے ان سے انشراح کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا باتیں کرنا شروع کر دیں وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ جس وقت حضرت والا نے آ کر مجھ سے باتیں کرنا شروع کی ہیں تو ذبح ہی تو ہو گیا میں تو یہ سمجھا تھا کہ نماز پڑھنے کے بعد مجھ