ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
طرق ہیں منجملہ ان کے ایک مدرسہ بھی ہے اگر مدرسہ رہے تو کام کئے جاؤ اور اگر نہ رہے کسی اور جگہ بیٹھ کر کام کر لینا ( ایک مرتبہ حضرت مرشدی مدظلہم العالی نے ایک واقعہ فرمایا کہ جب اہل دیوبند مجلس شوری میں شریک ہونا چاہتے تھے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے منع فرمایا تھا تو اس پر بہت شور تھا اور فتنہ کا اندیشہ تھا تو میں نے حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ حضرت دفع شورش کے لئے کیا حرج ہے ۔ اگر ایک دو کو مجلس شوری میں لیا جائے آخر تعداد تو ہمارے حضرات ہی کی زیادہ رہے گی اور کثرت رائے پر فیصلہ ہوتا ہے تو جوابا مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ نا اہل کا ممبر بنانا معصیت ہے ۔ جو سبب ہے ناراضی خدا و رسول کا اس لئے ہم نا اہل کو مدرسہ کا ممبر نہ بنائیں گے چاہے مدرسہ رہے یا نہ رہے ۔ ہم کو رضا الہی مقصود ہے مدرسہ مقصود نہیں ۔ جامع آجکل لوگ اخباری خبروں پر شرعی حجتوں سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں فرمایا کہ آج کل لوگ اخباری خبروں پر ایسا وثوق رکھتے ہیں کہ شرعی حجتوں پر بھی ایسا بھروسہ نہیں سمجھتے حالانکہ اخبار میں اس قدر غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے کہ جس کی کچھ انتہا نہیں ایک مولوی صاحب کا آج خط آیا ہے کہ جس مضمون پر آپ نے مجھے تنبیہ کی ہے وہ مضمون میں نے اخبار میں نہیں دیا ہے ۔ حالانکہ اس میں ایک حرف بھی میرا نہیں ہے ۔ عوام جن باتوں کی رعائت نہ کر سکیں اس کی اجازت دینا مضر ہے فرمایا کہ ایک شخص کہتے تھے کہ فلاں مولوی صاحب نے عید میلاد النبی کے متعلق لکھا ہے کہ کچھ حرج نہیں ہے مگر جو مفاسد میلاد النبی میں ہیں اس سے یہ مبرا ہونا چاہئے اور تخصیص یوم کی بھی نہ ہونا چاہئے ۔ کبھی یکم ۔ کبھی گیارہ کبھی بارہ پندرہ سولہ جب موقعہ ہوا کر دی ہمارے حضرت نے فرمایا بھلا عوام ان باتوں کی کب رعایت کر سکتے ہیں اور پھر آپ نے مفاسد کو بھی نہیں گنوایا کہ کن کن مفاسد سے مبرا ہونا چاہئیے ایک ہندو نے لکھا ہے کہ قطع نظر از مذہب و ملت سب مذاہب والوں کو دوسرے مذہب کے رہنما کی تعزیت و خوشی میں شریک ہونا چاہئیے اور میں بھی عید میلاد النبی میں دوش بدوش ہوں ہمارے حضرت نے فرمایا ۔ بس کل کو ہندوؤں کے رام لیلا و دیگر میلوں میں بھی مسلمان