ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
ٹانگ اڑا کر اپنے آپ کو بدنام کیا ورنہ ان کو تو لوگ دنیا کا تو ضرور ہی پیشوا بنا لیتے بڑے محب قوم تھے دین میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے اسی سے نقصان ہوا ان کے حوصلہ کا ایک قصہ ہے کہ ایک شخص لیفٹننٹ گورنر کے پاس گیا اور یہ کہا کہ سرسید کا داماد ہوں آپ مجھے کوئی جگہ دے دیجئے ۔ لیفٹننٹ گورنر نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں اور کبھی کبھی مجھ سے ملتے رہیں ۔ اس کے بعد لیفٹننٹ گورنر نے سرسید احمد کو خفیہ تار دیا کہ ایک شخص جس کا یہ نام ہے ہمارے پاس آیا ہے اور یہ کہتا ہے ۔ آپ اس میں کیا کہتے ہیں سرسید احمد نے جواب دیا کہ واقعی وہ جیسے کہتا ہے صحیح ہے میرا ہی داماد ہے آپ جس قدر اس کے ساتھ احسان کریں گے وہ میرے ہی ساتھ ہو گا اس جواب کے آنے کے بعد لیفٹننٹ گورنر نے اس کو نوکری دے دی ایک دن باتوں باتوں میں لیفٹننٹ گورنر اس شخص سے کہنے لگا کہ ہم نے تمہارے خسر سرسید احمد سے یہ پوچھا تھا انہوں نے یہ جواب دیا یہ سن کر بہت پریشان ہوا اور یہ چھٹی کا موقع دیکھتا رہا کہ جب چھٹی ملے تو ان سے جا کر معذرت کروں جب ان کو اتفاق سے چھٹی ملی تو سرسید احمد کے پاس گئے اور قدموں میں گر گئے ۔ سرسید احمد نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اس نے کہا کہ میں وہی نالائق ہوں جس نے لیفٹنٹ گورنر سے آپ کی نسبت ایسے ایسے کہا میں کیا کروں میرے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا ۔ اس مجبوری کی وجہ سے ایسا کیا ۔ سرسید احمد نے کہا کہ نہیں نہیں آپ گھبرائیے نہیں ۔ داماد ہونے کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ کوئی میری بیٹی ہوتی اور وہ آپ سے منسوب ہوتی ۔ اب یہ ہو سکتا ہے کہ جو آپ کی منکوحہ ہے اسے میں بیٹی بنا لوں چنانچہ اس کی منکوحہ کو بلایا اور جہیز وغیرہ دے کر نہایت خوشی و احترام سے رخصت کیا ۔ سرسید احمد خان کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ فرمایا کہ ایک رئیس پنجاب سے آ رہے تھے راستہ میں علی گڑھ کا سٹیشن آیا اور وہاں سرسید احمد بھی سوار ہوئے گاڑی ہی میں ان رئیس صاحب کا ان سے تعارف ہوا مختلف باتیں ہوتی رہیں اسی میں انہوں نے پوچھا یہ کون سا سٹیشن ہے سرسید احمد نے کہا کہ علی گڑھ ہے ۔ رئیس صاحب نے کہا کہ یہ وہ ہی علی گڑھ جس میں ایک سرسید احمد خبیث رہتا ہے اس