ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
باسمہ تعالی حامدا و مصلیا محفوظات طبیبوں ، صوفیوں اور شاعروں کی صحبت کے دینی و دنیوی نتائج فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اپنے سلسلہ کے ایک استاد سے نقل فرماتے تھے جس شخص کو دنیا کا بنانا ہو اور دین سے کھونا ہو اس کو طبیبوں کے سپرد کر دے اور جس کو دین کا بنانا ہو اور دنیا سے کھونا ہو اس کو صوفیہ کے سپرد کر دے اور جس کو دونوں سے کھونا ہو اس کو شاعروں کے سپرد کر دے اس پر میں نے ( یعنی حضرت مرشدی حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ) عرض کیا کہ حضرت جس کو دونوں کا بنانا ہو تو فرمایا کہ یہ ناممکن ہے ۔ قال العارف الرومی ۔ ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں تشدد سے اصلاح نہیں ہوتی فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک واعظ دہلوی کی نسبت فرماتے تھے کہ متشدد بہت تھے اس قدر تشدد سے اصلاح نہیں ہوتی حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جب حج کو تشریف لے گئے تو حضرت نے راستہ میں ایک طبیب رئیس کی دعوت قبول کر لی تو اس پر واعظ مذکور کا اعتراض تھا کہ فاسقوں کی دعوت قبول کر لی حالانکہ سب سے زیادہ حضرت مولانا کے معتقد تھے ۔ ایک واعظ صاحب کی رائے حضرت حکیم الامت کے لباس کے بارہ میں فرمایا کہ ایک مرتبہ میں دیوبند گیا تھا چونکہ بہلی کے ذریعے سفر کیا تھا اس وجہ گرد و غبار سے کپڑے میلے ہو گئے تھے اسی حالت میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر حاضر ہوا وہاں مولانا مسعود احمد صاحب بھی تھے اور ان کے پاس وہ واعظ صاحب بھی موجود تھے ان کو میں نے بالکل نہیں پہچانا تو انہوں نے عربی جملہ میں فرمایا ( انی کنت مشتاقا الیک ) پھر میں نے مولانا مسعود احمد صاحب سے دریافت کیا