ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
ہوتی تو ان لا یطوف بھما فرماتے اس لئے اب عدم وجوب پر استدلال صحیح نہیں رہا ۔ یہ سوال کہ اس طرح کیوں تعبیر فرمایا تو نکتہ یہ ہے کہ مشرکین اس کے کرنے میں حرج سمجھتے تھے یہ ان کا رد ہے ۔ اس جواب کو ایک تابعی نے سنا تو فرمایا ذاک العلم یعنی یہ ہے علم جو ذرا سی بات سے گلجھڑی کھل گئی ۔ رہا یہ کہ آیت اگر عدم وجوب پر دال نہیں تو وجوب پر بھی دال نہیں اس کا وجوب حدیث ان اللہ کتب علیکم السعی سے ثابت ہے ۔ " خیر من الف شھر " کی تفسیر فرمایا کہ لیلۃ القدر کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس کا ثواب ایک ہزار رات کے برابر ہے مگر یہ غلط ہے کیونکہ اگر یہ مراد ہوتی تو کالف شھر فرماتے مگر خیر من الف شہر فرمایا ہے اور خیر کا ترجمہ ہے زیادہ بہتر ۔ اب یہ کہ کتنا زیادہ اس کا علم اللہ کو ہے ۔ جب ابہام ہے تو متعین کیوں کریں ۔ جب تعین نہیں تو یہ بھی احتمال ہے کہ لاکھ حصہ زیادہ ہو مثلا اگر اللہ تعالی سے اتنی ہی امید رکھے تو انا عند ظن عبدی ہی کی بناء پر امید ہے کہ اس کو اتنا ہی مل کر رہے گا ۔ البتہ اس پر ایک سوال ہے وہ یہ کہ محاورات میں اتنی زیادتی مراد نہیں ہوا کرتی بلکہ متقارب زیادتی مراد ہوتی ہے ۔ مثلا کوئی کہے کہ سو آدمی سے زیادہ تھے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہزار ہوں بلکہ یہی سمجھا جائے کہ سو سے دس بیس زیادہ ۔ تو اب وہ احتمال نہیں رہا کہ لاکھ حصے زیادہ ہو ۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ محاورہ وہاں ہے جہاں زائد کے لئے کوئی عدد بھی موضوع ہو اور پھر اس عدد کو اختیار نہ کیا جائے جیسے ہمارے محاورہ میں لاکھ کروڑ وغیرہ وضع کئے گئے ہیں ۔ بخلاف لغت عرب کے کہ وہ لوگ چونکہ حساب کم جانتے تھے ۔ اس لئے ہزار سے زیادہ کے لئے کوئی مستقل لغت مستعمل نہیں ہے بلکہ اگر زیادہ کرنا ہوتا ہے تو الف پر مائتہ بڑھائیں گے جس کے معنی ایک لاکھ کے ہوں گے اور ہمارے محاورہ میں یہاں سنکھ تک موضوع ہے ۔ اس لئے جواب بھی زیادہ ہو گا اسے سنکھ در سنکھ کہیں گے یعنی سنکھ سے بھی زیادہ تو ہمارے یہاں غیر محدود زیادتی کو بڑے عدد سے بڑا کہہ کر تعبیر کر دیتے ہیں پس عرب میں چونکہ الف سے زیادہ کوئی لغت نہ تھا اس لئے غیر محدود زیادہ کو اس سے زائد کہہ کر تعبیر کریں گے پس خیر من الف شھر کے معنی یوں ہوں گے کہ اے سامعین جس کو تم سب سے بڑا عدد سمجھتے ہو یہ اس سے بھی زیادہ