ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
نے دین میں بڑی تخریب کی ہے اور اس کے سوا بہت کچھ کہتا رہا سرسید احمد نے کہا کہ یہ وہی علی گڑھ ہے جس میں وہ خبیث رہتا ہے اور وہ تو اس سے زیادہ بدتر ہے پھر ان رئیس صاحب نے کھانا نکالا کہ آئیے کھانا کھا لیجئے انہوں نے عذر کیا جب انہوں نے اصرار کیا تو سرسید احمد نے کہا کہ مجھے ایسا عذر ہے کہ اگر آپ کو خبر ہو جائے تو آپ میرا اس گاڑی میں بیٹھنا بھی گوارا نہ کریں ۔ انہوں نے کہا خدانخواستہ ایسا کیوں ہونے لگا ۔ کہا کہ میں وہی سرسید احمد ہوں جس کی آپ تعریف کر رہے تھے ۔ بس کیا تھا یہ رئیس صاحب قدموں میں گر گئے اور کہنے لگے کس کم بخت نے آپ کو بدنام کیا ہے آپ تو بڑے وسیع الاخلاق ہیں ۔ بس پھر تو وہ مرید ہی ہو گیا ہمارے حضرت نے فرمایا کہ یہ جو مشہور ہے کہ وہ انگریزوں کا خیر خواہ تھا یہ غلط ہے بلکہ بڑا دانشمند تھا یہ سمجھتا تھا کہ انگریز برسر حکومت ہیں ان سے بگاڑ کر کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ ان سے مل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ سرسید احمد خان کا ایک انگریز سے برتاؤ فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک انگریز جو جج تھا فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا ۔ سرسید احمد بھی سٹیشن علی گڑھ پر سوار ہوئے جو انگریز کو ناگوار ہوا ۔ یہ کسی ضرورت سے گاڑی سے دور ہو گئے تو اس نے اپنے خانساماں سے ان کا اسباب گاڑی سے باہر پھینکوا دیا جب یہ آئے تو وقت کے منتظر رہے وہ اتفاق سے ہوٹل میں گیا ۔ انہوں نے اپنے نوکر سے اپنا اسباب رکھوا لیا اور اس کا اسباب پھینکوا دیا وہ آ کر بڑا خفا ہوا کہ یہ اسباب کس نے نکلوایا ہے ۔ سرسید نے جواب دیا کہ جس کا تم نے نکلوایا تھا ۔ جج نے کہا تم نہیں جانتے ہم کون ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تم نہیں جانتے ہم کون ہیں ۔ اس نے کہا ہم جج ہیں ۔ سرسید احمد نے کہا کہ ہم جج کے باپ ہیں ۔ انگریز نے کا گالی دیتے ہو انہوں نے کہا کہ سید محمود ہائی کورٹ کا جج نہیں ہے ہم اس کے باپ ہیں پھر وہ انگریز معذرت کرنے لگا کہ اخاہ سید صاحب ہیں ۔ سرسید نے کہا تم بڑے بے حیا ہو تہذیب کا دعوی کرتے ہو اور تہذیب خاک بھی نہیں ۔ سرسید کے بیٹے کا ایک انگریز سے پاؤں دبوانے کا قصہ فرمایا کہ ایک دفعہ سرسید احمد کا لڑکا حامد جو سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا سفر کر رہا تھا