ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کہ میں ایک دفعہ ان کے یہاں مہمان تھا میں نے ایک روز دیکھا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہنستے کھیلتے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اہا جی ہمارے یہاں آج شیخ جی آئے اور اس روز کھانے میں بھی بہت دیر ہو گئی انہوں نے سمجھا کہ شیخ جی کوئی بڑے آدمی معلوم ہوتے ہیں ان کے لیے اچھے اچھے کھانے پک رہے ہیں اسی وجہ سے کھانا آنے میں دیر ہوئی جب بہت دیر ہو گئی اور کھانے کا وقت گذر گیا تو میں نے کسی سے پوچھا کہ بھائی یہ شیخ جی کون ہیں اور وہ اب تک دکھلائی بھی نہیں دیے لوگوں نے کہا کہ آج ان کے یہاں فاقہ ہے بچے اسی کو شیخ جی کے لقب سے یاد کر کے خوش ہو رہے ہیں ہمارے حضرت نے فرمایا کہ بزرگوں کی اولاد میں بھی اثر ہوتا ہے گو وہ خود بزرگ نہ ہوں یہ وکیل صاحب بزرگ زادہ تھے ۔ بزرگوں میں بھی منتظم اور غیر منتظم دونوں طرح کے ہوتے ہیں فرمایا کہ بزرگ بھی منتظم اور غیر منتظم اور دنیا دار بھی منتظم اور غیر منتظم دونوں میں دونون قسم کے ہوتے ہیں بعضوں کے یہاں انتظام ہوتا ہے بعضوں کے یہاں نہیں ہوتا ۔ مولانا فضل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں حساب کی کوئی یاداشت ہی نہ تھی ایک بقال کے یہاں سامان آتا تھا جو وہ بتلا دیتا تھا وہ آپ دے دیتے تھے آپ کچھ پوچھتے ہی نہ تھے چاہے وہ کتنا ہی بتا دے آپ کے وصال کے بعد ایک مجلس تعزیت میں وہ بنیا آیا اور کہا کہ میرا چھ ہزار روپیہ کا حساب مولانا کی طرف ہے مہمانوں میں ایک راجہ صاحب بھی تھے انہوں نے تھیلی چھ ہزار کی مولانا کی قبر پر رکھ دی اور بنئے سے کہا کہ اگر تیری رقم واجب ہے تو اٹھا لے اس نے تھیلی اٹھا لی اور ہمارے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے جو وصیت نامہ لکھا تو اس میں یوں لکھا ہے کہ بندہ کے ذمہ قرض نہیں ہوا کرتا حالانکہ مولانا کے یہاں بھی اول اول فاقے ہوئے ہیں مگر منتظم بڑے تھے ۔ ایک انگریز نے حضرت شیخ الہند کی عظمت کا اعتراف کیا فرمایا کہ حافظ احمد صاحب سے مسٹن نے کہا تھا کہ ہمارے قلب میں بھی مولانا دیوبندی کی ویسی ہی عظمت ہے ، جیسے آپ کے قلب میں ہے اور جو اس تحریک میں شریک