موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا وَكَفٰى بِنَا حَاسِبِيْنَ ۱؎ ہم قیامت کے روزایسی ترازویں لا رکھیں گے جو سراپا انصاف ہوں گی،چنانچہ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا،اور اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کےبرابر بھی ہوگا تو ہم اسے سامنے لے آئیں گے۔اور ہم حساب کے لئے کافی ہیں۔ اس مضمون کے سمجھانے کے بعدفرمایاکہ ہم نے چونکہ آخرت میں انصاف کاترازو قائم کیا ہے اس وجہ سے تمہیں بھی دنیا میں اپنا ترازو انصاف کے ساتھ قائم رکھنا ہوگا، فرمایا:میزان میں خسارہ نہ کریں : اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ وَأَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ یعنی جوچیزتولی جارہی ہےاُس میں کمی نہ کرو۔دینے کےاعتبارسےبیشی تو کرسکتے ہیں لیکن کمی نہ کرو۔ علامہ آلوسینے اس کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’ لَا تُخْسِرُوْا اَنْفُسَکُمْ فِی الْمِیْزَانِ،اَیْ لَا تَکُوْنُوْ خَاسِرًا بِھَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِسَبَبِ الْمِیْزَانِ بِاَنْ لَا تَرَاعُوْا مَا یَنْبَغِیْ فِیْهِ‘‘۲؎ ’’تم میزان میں اپنے آپ کا خسارہ مت کرو،یعنی تم خسارہ اٹھانے والے مت بنو قیامت کے دن میزان کی وجہ سے کہ تم ان چیزوں کی رعایت نہ کرسکو جس کو کرنا چاہئے تھا۔‘‘ یہ خسارہ پیدا ہوتا ہے دنیا میں اپنے اقوال،اپنے افعال،اپنے معاملات،حقوق العباد اور حقوق اللہ میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے،عدل قائم نہ کرنے کی وجہ سے۔اگر ہم اس دنیا میں انصاف نہیں کریں گے تو اللہ پاک کل قیامت میں ہمارے ساتھ انصاف فرمائیں گے،ایک ایک عمل ہمارا دیکھا جائے گا،اگر رائی کے دانہ کے برابربھی ہم ------------------------------ ۱؎:الانبیاء:۴۷۔ ۲؎:روح المعانی:۲۷؍۱۰۲۔