موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
سے ’’لَبَّیْکْ اَلّٰلهُمَّ لَبَّیْکْ‘‘ کہتے ہیں، اس کے اصل معنی ’’بار بار حاضر ہونے ‘‘ کےہیں۔ یہاں ’’لبیک‘‘جو کہ تثنیہ کا لفظ ہے اس کا مقصد بھی تعدد کو بتانا ہے، کہ صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ ایک سے زیادہ مرتبہ میں آپ کی بات پر حاضری دیتا ہوں،احترام کے پیش نظر اس طرح کہا جاتا ہے۔اسی طرح حق تعالیٰ شانہ، دو دو جنتوں کا تعارف فرمارہے ہیں کہ اے بندے!تیرے لئے دو جنتیں ہیں،یاتیرے لئے جنتیں ہی جنتیں ہیں،بس میرے پاس آجا۔ جیسےاگر بچہ نہ پڑھ رہا ہو تو اُس کو یہ کہا جاتا ہے کہ تمہیں سائیکل دلائی جائے گی ، لہٰذا پڑھ لو۔ وہ پھر بھی نہیں مانتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ سائیکل کے ساتھ ساتھ تمہارے لیے ہم ایک اسکوٹر بھی خریدیں گے ،اب پڑھ لو۔ اگر وہ اب بھی نہ پڑھے تو آپ اُس سے مزید کسی اورچیز کا وعدہ کرتے ہیں ۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کایہ انداز ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتوں کو بھی یاد دلارہے ہیں اور آئندہ جو دی جانے والی ہیں اس کی بھی ترغیب دلارہے ہیں۔تاکہ بندہ میں سمع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔اورناشکری کا مزاج نکل جائے۔ایک نکتہ : اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان جنتوں کے ذکرمیں آٹھ قسم کی نعمتوں کا بیان فرمایا ،اور آٹھ مرتبہﯚفَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِﯙذکر فرمایا۔ جب جہنم کی تفصیلات بیان فرمائیں تو اُس میں سات قسم کے عذابوں کا تذکرہ فرمایا اور سات ہی مرتبہﯚفَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِﯙذکر فرمایا،کیونکہ جہنم کے سات دروازے ہیں اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ اس اعتبار سے جنت کی آٹھ نعمتیں بیان فرمائی،اور جہنم کے سات عذاب بیان کئے۔تاکہ آدمی جنت کے کام کرے اور ان آٹھ نعمتوں کو حاصل کرے، اور منہیات سے بچے اور جہنم کے ان سات عذابوں سے بچے۔اس طرز سے اس جانب بھی اشارہ ہے کہ:’’سَبَقَتْ رَحمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ‘‘کہ اللہ پاک کی رحمت اس کے غصہ پر غالب ہوتی ہے۔کیونکہ سزاکا ذکر ہے تو سات مرتبہ ہےاور نعمت کا ذکر ہے تو آٹھ مرتبہ ہے۔