موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
مشرق اور مغرب کا رب : رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ۱۷ فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۱۸ ’’ وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک (ہے)، تو تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ مشرق سورج کے نکلنے کی جگہ کو کہتے ہیں،اورمغرب اُس کے ڈوبنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔مشرق اورمغرب کوتثنیہ کیوں لایا گیا ؟ ’’مَشْرِقَیْنِ‘‘اور’’مَغْرِبَیْنِ‘‘تثنیہ کا صیغہ ہے،اس کے معنیٰ ہیں کہ وہ دو مشرق اوردومغرب کا ربّ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ پاک دومشرقوں کے رب کیسے ہیں؟اور اس کا کیا مطلب ہے؟ مفسرین نے اس کی کئی توجیہات کی ہیں۔ (۱)ابن عباسکہتے ہیں کہ چونکہ موسمِ گرما میں سورج الگ جگہ سے طلوع ہوتا ہےاور موسمِ سرما میں ا لگ جگہ سے طلوع ہوتا ہے،اس لئے تثنیہ کا صیغہ استعمال فرمایاکہ وہ دومشرقوں کا رب ہے،اسی طرح جب ان دو موسموں میں اس کامقامِ طلوع الگ ہوگا تو مقامِ غروب بھی الگ ہوگا،اس لئے فرمایا کہ وہ دو مغربوں کا رب ہے۔۱؎ (۲)ایک مطلب یہ بھی ہے کہ چونکہ سورج کے نکلنےاورڈوبنے کی جگہ الگ الگ ہے۔ اورچاندکے نکلنے اورڈوبنے کی جگہ الگ الگ ہے۔ اس لئے تثنیہ کا صیغہ استعمال فرمایا۔۲؎ (۳)سورج دنیا میں کہیں نہ کہیں طلوع ہوتا رہتاہے اور کہیں نہ کہیں غروب ہوتا رہتا ہے۔جب زمین گردش کرتی ہوئی سورج کے سامنے آتی ہے تو وہاں پر سورج کا ظہور ہوتا ہے اورزمین کا جو حصہ سورج سے چھپتا جاتا ہے وہاں سورج ڈوب رہا ------------------------------ ۱؎:روح المعانی:۲۰؍۱۲۸۔ ۲:حوالۂ سابق۔