موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
ذَرْهُمْ يَأْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۱؎ (اے محمد) ان کو ان کے حال پر رہنے دو کہ کھا لیں اور فائدے اٹھا لیں اور (طول امل) ان کو (دنیا میں) مشغول کئے رہے۔ عنقریب ان کو اسکا (انجام) معلوم ہو جائے گا۔ بہر حال یہ اللہ پاک کا اصول ہے کہ ان کی رحمت ان کے غصے پر غالب ہوتی ہے، اور دنیا ومافیہا کی نعمتوں سے آدمی اسی صفت رحمت کے اثر سے مستفید ہوتا ہے۔انعامات کے ذکر کا مقصد : اسی طرح سورۂ رحمٰن میں زیادہ تر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر ہے۔اور نیک اعمال کی بنیاد پر جنت نعیم کا وعدہ ہے، تاکہ بندوں میں جذبۂ احسان شناسی پید اہو، اور احسان شناسی کی وجہ سے شکر کا مزاج بنے اور شکر سے اتباع اور خوشنودی کا جوش پیدا ہو اور پھر اس کے بدلے میں آدمی اللہ تعالیٰ سے مزید نعمتوں کے قابل اپنے آپ کو بنائے۔ یہی اس کا مقصد ہے۔اسی کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ پاک نے بار بار ارشاد فرمایا: فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ’’تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘‘؟اور کہاں تک جھٹلاؤگے؟۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کو ہرگز نہیں جھٹلاسکتے،یعنی ایسی کوئی صورت ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے یہ نعمتیں تمہیں مل جائیں،اور تمہاری ضروریات کی تکمیل ہو،اگر تم ہمارے محتاج نہ ہوتے، تم خودہی آزاد ہوتے، اورخود سے ہی کوئی کام کرلیتے توکوئی بات ہوتی۔لیکن نہ تو تم خود آزاد ہو اور نہ تمہارے ------------------------------ ۱؎: الحجر:۳ ۔