موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر کام میں اللہ کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے،اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی مرضی اللہ کی مرضی ہوجاتی ہے،اس وجہ سے اللہ پاک اس کے کام کو اپنی جانب منسوب کردیتے ہیں۔اسلوبِ قرآنی سے متعلق ایک نکتہ : ایک اور نکتہ اس موقع پر ذہن میں رکھیں،وہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے یہاں صفتِ رحمن کیوں ذکر فرمائی؟کسی اور صفت کا بھی ذکر فرماسکتے تھے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک کی ایک عادت مبارکہ ہے کہ جہاں وہ کسی فعل کا حکم فرماتے ہیں یا اپنا کوئی فعل ذکر کرتے ہیں تو جو صفت اس سے مناسبت رکھتی ہے اس کو وہاں ذکر فرماتے ہیں۔ جیسے عبادت کا حکم دے رہے ہیں تو فرماتے ہیں: یَااَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ۱؎ ’’اے لوگو! تم اپنے ربّ کی عبادت کرو، کیونکہ وہ تمہارا پالنہار ہے‘‘یہاں پر اللہ پاک نے لفظِ’’ربّ‘‘استعمال فرمایا ہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اور بھی بہت سی صفات ہیں لیکن یہاں موقع کی مناسبت سے ’’ربّ‘‘ استعمال فرمایا۔ کیونکہ عبادت ربوبیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک جگہ نگاہوں کو نیچی رکھنے کا حکم دے رہے تو فرماتے ہیں: قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ أَزْكٰى لَهُمْ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌبِمَا يَصْنَعُوْنَ ۲؎ آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں،اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے ،بے شک الله تعالیٰ کو سب خبر ------------------------------ ۱؎:البقرۃ:۲۱۔ ۲؎:النور:۳۰۔