موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
ہے ہم وہ سب زبانِ حال سے مانگ رہے تھے۔اس لئے اللہ پاک نے وہ سب چیزیں ہمیں عطا فرمائیں اور فرمایا: وَاٰتَاکُمْ مِّنْ کُلِّ مَاسَاَلْتُمُوْہُ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِِ لاَ تُحْصُوْهَااِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ۱؎ اور جو جو چیز تم نے مانگی تم کو ہر چیز دی، اور الله تعالیٰ کی نعمتیں اگر تم(ان کو) شمار کرنے لگو تو شمار میں نہیں لا سکتے (مگر) یہ سچ ہے کہ آدمی بہت ہی بے انصاف بڑا ہی ناشکرا ہے ۔دعا عبادتوں کا مغز اور رحمتوں کا سبب ہے : بندوں کا مانگنا اور اپنی محتاجگی کااظہارکرنا اللہ پاک کو بہت پسند ہے،وہ ایسی ذات ہے جنہیں نہ مانگنے پر غصہ آتا ہے۔وہ نہ مانگنے والےپر زندگی تنگ کردیتے ہیں توپھر وہ مانگنے لگتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی نے ارشاد فرمایا: جس آدمی کے لئےدُعا کا دروازہ کھل گیا اُس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے۔۲؎ ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ‘‘۲؎ دُعا تو عبادت کا مغز اُس کی روح اور جان ہے۔نعمتوں کا حصول بطورِ تجدد امثال ہے : ہمارے اندر جو وجودی صفات ہیں ان کی بڑی عجیب و غریب حالت ہے۔ حیات، علم، ارادہ، قدرت، سماعت، بصارت،اور کلام کو ’’وجودی صفات‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سب خاص صفات کہلاتی ہیں،اس کے علاوہ دیگرصفات اس کی شاخیں ہیں۔یہ وجودی صفات انسان کو ایک ساتھ عطا نہیں کی گئیں،مثلا اللہ پاک نے آنکھ میں روشنی اور بینائی عطا فرمائی،اگر کوئی کسی کی آنکھ پھوڑ کر وہاں سے نور کا خزانہ لینا چاہے تو نہیں لے سکتا،وہاں ------------------------------ ۱؎:ابراہیم: ۳۴۔ ۲؎:سنن الترمذی:باب من ابواب الدعوات۔۳؎:۔سننِ ترمذی:باب فضل الدعاء،۳۳۷۱۔