موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
اس روایت میں آپ نے عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کرنے کی ترغیب دی ہے،لیکن امت پر مشقت کے خوف سے اس کا حکم نہیں فرمایا۔وقت ِ عشاء کے سلسلہ میں ایک غلط فہمی : یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ عشاء کی نماز کے بارے میں یہاں (امریکہ)کےلوگ کافی پریشان ہیں۔صرف عشاء ہی نہیں بلکہ دیگرنمازوں کے اوقات میں بھی کافی گڑ بڑ کی جارہی ہے،صرف تین مہینے کا مسئلہ ہے،آدمی کو صرف تین مہینےتھوڑاصبرسے کام لینا پڑتاہے۔ عشاء کاوقت پونے گیارہ بجے شروع ہوتا ہے جاب(Job)سے رات کوچھٹی ہوتی ہے،پھر دوسرے دن جاب کو جانے میں مشقت ہوتی ہے،بس مولوی صاحب! کسی طریقے سے عشاء کا وقت جلدی کردیں، نئےنئےاجتہادات کی کوشش کی جاتی ہے،اور مختلف قسم کی باتیں کی جاتی ہیں اور مختلف نوعیت کے اعتراضات کئے جاتے ہیں کہ یہ سائنس کا دور ہے، اس میں جوسائنسی تحقیقات ہیں پہلے زمانے والوں کواس کا کیا اندازہ؟اس لئے اس مسئلے سے متعلق چند باتیں ذہن میں رکھیں۔نمازوں کے اوقات منصوص ہیں : پہلی بات یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ،ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا: إِنَّ الصَّلَا ۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۱؎ ’’بے شک نماز مسلمانوں پر وقت مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔ ‘‘ ------------------------------ ۱؎ : النساء:۱۰۳۔