موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
’’ كَانَ لَا يَرىٰ بَأْسًا بِالشَّیْئِ مِنَ الْقُرْآنِ ‘‘ ’’وہ قرآن لکھ کر لٹکانے میں کوئی حرج نہیں سجھتے تھے‘‘۱؎ حضرت مجاہد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے تعویذ لکتے تھے اور ان پر لٹکاتے تھے۔۲؎ حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ تعویذ اگر چمڑے میں ہو تو (اس کے لٹکانے میں )کوئی حرج نہیں ہے۔۳؎تعویذ لٹکانےاور باندھنے کے بارےمیں ابن تیمیہ کا فتویٰ : ابنِ تیمیہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں’’وَيَجُوْزُ أَنْ يَكْتُبَ لِلْمُصَابِ وَغَيْرِهٖ مِنْ الْمَرْضٰى شَيْئًا مِنْ كِتَابِ اللّٰهِ‘‘اور یہ جائز ہے کہ مریضوں کی صحت یابی کے لئے قرآن میں سے کچھ لکھا جائے اور جائز مدد لی جائے،اور ان کو دھویا جائے اور پلایا جائے،جیساکہ امام احمد ابن حنبل نے اس کی صراحت کی ہے،اس کے بعد علامہ ابن تیمیہ نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے حضرت ابن عباس اور دوسرے آثار کو نقل کیا،جن میں تعویذ لکھنے،اس کو پلانے اور باندھنے کا ذکر ہے۔۴؎ نیز سعودی علماء کے بھی اس سلسلہ میں مختلف فتاویٰ شائع ہوئے،لیکن ان کااخیر اور مفتیٰ بہ قول وہی ہے جو کہ ہمارا مسلک ہے،جس کا ہم نےاوپر ذکر کیا ہے۔۵؎ ان نصوص اور عملِ صحابہ اور تابعین اور سلف کے فتاویٰ سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور علاج تعویذلکھنا،اس کا باندھنااور لٹکانا اور اس کو دھوکر پلانا مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ ------------------------------ ۱؎:مصنف ابن ابی شیبہ:کتاب الطب:باب من رخص فی تعلیق التعاویذ۔ ۲؎:حوالۂ سابق۔ ۳؎:حوالۂ سابق۔ ۴؎:مجموع الفتاویٰ:فصل فی جواز ان یکتب للمصاب وغیرہ:۱۹؍۶۴۔ ۵؎:فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیہ:الشروط اللازمة لجواز كتابة الرقى وشرب مائها،۲؍۳۶۸۰۔