موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
حضور کا قرآن پاک سننا : حضرت عبداللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضور پاک نے مجھ سے فرمایا: ’’تم مجھے قرآن پاک سناؤ۔‘‘حضرت عبداللہ ابن مسعود نے عرض کیا: ’’أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ‘‘میں قرآن پاک آپ کو سناؤں؟ حالانکہ وہ آپ ہی پر اُترا ہے۔آپ نے فرمایاکہ : ’’ہاں میں چاہتا ہوں کہ میں سنوں‘‘ آپ کو کلام اللہ سے اتنا عشق تھا کہ تلاوت تو کرتے ہی تھے، لیکن سننے میں بھی مزہ آتا تھا،بلکہ سننے میں پڑھنے سے زیادہ یکسوئی ہوتی ہے اور جتنی زیادہ یکسوئی ہوتی ہے آدمی اتنا ہی متأثر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رکو تلاوت کا حکم دیا،آپ نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کی اور سورۂ نساء پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچے: ’’فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَاءِ شَھِیْداً‘‘(۴۱) ’’سو اس وقت بھی کیا حال ہوگا جبکہ ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے اور آپ کو بھی ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے حاضر کرینگے‘‘ آپ نے جب اس آیت کو سنا تو فرمایا: ’’بس! بس!‘‘ جب حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے نظر اُٹھاکر دیکھا تو آپ کی آنکھ مبارک سے آنسو چھلک رہے تھے۔۱؎ قرآن سے آپ کو اتنا لگاؤتھا،اتنا تعلق تھا،کہ آپ بکثرت اسے پڑھتے بھی تھے اور صحابۂ کرام سے سنتے بھی تھے۔ میرے دوستو! تلاوت کرو! قرآن پاک کی تلاوت بھی خود مقصود ہے۔ قرآن پاک کو ’’قرآن‘‘ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اس کی تلاوت کی جاتی ہے،اوراس کو پڑھا جاتا ہے۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری:کتاب فضائل القرآن:باب قول القاری للمقری حسبک،۵۰۵۰۔