موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
صفتِ عدل سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ کی تشریح : صفتِ عدل کی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نےکچھ اور تفصیل بیان کی ہے۔فرمایا کہ کہ اصل میں عدل ایک ایسا وصفِ انسانی اور ملکہ ہوتا ہے جو سارے نظام دین کی اصل ہے جس سے نظامِ انصاف وجود میں آتا ہے، اس کی وجہ سے گھریلو زندگی ،ملکی معاملات ،سیاسیات اور مالی انتظامات اور اخلاق وعادات میں ایک ایسا معتدل اور مفید نظام قائم ہوجاتا ہے جو بالکل اللہ تعالیٰ کی پسند کے موافق ہوتاہے، جو انسان کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سعادت نیک بختی سے بہرہ ور کردیتا ہے۔ چونکہ اس وصف کی حقیقت ہی یہ ہوتی ہے کہ ہر شئی، ہر بات اورہر عمل کو اس کے صحیح مقام پر رکھاجائے، چاہے وہ اعتقادی ہو یا عملی اور عمل میں دنیا وی ہو یا دینی، اپنی ذات سے متعلق ہو یا دیگر بندوں سے، بڑوں سے متعلق ہو یا چھوٹوں سے، دوستوں سے متعلق ہو یا مخالفین سے حتیٰ کہ خالق سے متعلق ہو یا مخلوق سے۔ اسی وجہ سے شرک کو ظلمِ عظیم کہا گیا ہے، کیونکہ توحید عدل کا تقاضہ ہے یہ اللہ کا حق ہے اور اللہ ہی کیلئے سزا وار ہے، غیر اللہ میں جن صفاتِ کمال کو منسوب کرکے قابل پرستش سمجھا جاتا ہے وہ قطعاً غلط ہیں، اور حق تعالیٰ کی حق تلفی ہے اس سے بڑھ کر ظلم اورکیا ہوگا؟ غرض یہ وصف ایسے افکار کے وجود میں آنے کا باعث ہوتا ہے ۔ جومنشأِ خدا وندی کے موافق اور مناسب ہوتے ہیں، اس لئے حق تعالیٰ انسانوں کے امور میں انتظام چاہتے ہیں ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ انسان آپ میں تعاون کریں، ظلم نہ کریں، جڑئے ہوئے رھیں، آپس میں نا اتفاقی نہ کریں، ان کی نسل میں اضافہ ہو ان کے غلط کاروں اور فاسقوں کا مؤاخذہ اور تنبیہ ہو، عدل وانصاف کرنے والوں کی پزیرائی ہو، رسومات فاسدہ